طالبان نے پرتشدد کارروائیاں بند نہ کی تو جوابی کارروائی کریں گے – امریکہ

127

افغانستان میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات کے سبب امن عمل کے خراب ہونے کے خدشے کے پیش نظر امریکی فوج نے طالبان کو خط لکھ معاملے کے سیاسی حل پر زور دیا ہے۔

طالبان کو لکھے گئے دو صفحے کے خط میں افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لیگٹ نے کہا کہ مزید خون بہا روکنے کے لیے تمام فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

انہوں نے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کو براہ راست لکھے گئے خط میں مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر پرتشدد واقعات میں کمی نہ آئی تو ہم جواب دینے پر مجبور ہوں گے۔

انہوں نے لکھا کہ تمام فریقین کو سیاسی حل کی جانب لوٹنا چاہیے، افغانیوں کو مل بیٹھ کر افغانستان کے مستقبل کے کے بارے میں گفتگو شروع کرنی چاہیے۔

یہ خط ایک ایسے موقع پر لکھا گیا ہے جب چند دن قبل 28 اپریل کو افغانستان میں امریکا اور نیٹو افواج کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر نے طالبان کو متنبہ کیا تھا کہ بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات میں کمی نہ آئی تو انہیں اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا اور غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کریں گے اور قیدیوں کےتبادلے کے بدلے کابل انتظامیہ سے امن مذاکرات شروع کریں گے۔

اس کے بدلے امریکا اور غیر ملکی افواج نے 14 ماہ میں افغان سرزمین چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا۔

طالبان اور امریکا میں معاہدہ ہوا تھا کہ امریکی افواج طالبان پر حملہ نہیں کریں گی لیکن اگر افغان فورسز پر حملہ کیا گیا تو وہ طالبان پر حملے کا حق رکھتے ہیں۔

سونی لیگٹ نے کہا کہ طالبان نے حملوں میں 80 فیصد کمی اور شہری علاقوں پر حملے روکنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے بجائے حملوں کی شدت میں بے انتہا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

طالبان کی جانب سے غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کیے جا رہے لیکن معاہدے کے بعد سے ان کی جانب سے مسلسل حملے جاری ہیں اور وہ اب اوسطاً روزانہ 55 حملے کر رہے ہیں۔

دوسری جانب قیدیوں کے تبادلے کا عمل ایک مرتبہ پھر تعطل کا شکار ہو گیا ہے کیونکہ کابل انتظامیہ اہم طالبان قیدیوں کو رہا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ دوبارہ جنگ کے لیے میدان میں اتر جائیں گے۔

لیگٹ کے خط کے جواب میں طالبان نے اشتعال انگیز بیانات دینے پر امریکا کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی جانب سے جنگ کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں اور اپنی جانب سے معاہدے کا احترام کر رہے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 29 فروری کو معاہدے پر دستخط کے بعد سے اب تک طالبان ساڑھے 4 ہزار سے زائد حملے کر چکے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ وہ صوبے متاثرہ ہوئے ہیں جہاں اب تک کورونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔