پُرامن احتجاج سے جنگی محاذ تک – شعبان زہری

401

پُرامن احتجاج سے جنگی محاذ تک

تحریر: شعبان زہری

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ معاشرے میں شعور وہ طاقتور لفظ بن کر اُبھر رہا ہے کہ جو ریاست پاکستان کی بنیادیں ہلا رہی ہے، بلوچ نوجوانوں کے شعوری فیصلوں نے پاکستانی ریاست کو بوکھلاہٹ کا شکار بنا کر رکھ دیا ہے. اب ریاست پاکستان خود اپنی آخری سانسیں گننے، اپنی بقاء اور شناخت کو بچانے میں مصروف رہ کر کرائے کے قاتلوں کو بلوچ سرمچاوں کے خلاف جنگی کارروائی میں استعمال کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے- بلوچ ورناؤں کے شعوری عملی اقدامات نے ریاست پاکستان کو اس بے بس پرندے کی پھڑپھڑانے پر مجبور کر دیا ہے، جو کسی شکاری کی جال میں پھنس جاتا ہے لیکن جان بچا نہیں سکتا۔

شور پارود میں پاکستانی تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ دُو بدو لڑائی میں شہادت پانے والے احسان بلوچ اور شہداد بلوچ ان ہی شعور یافتہ ورناؤں میں سے تھے، جو کل تک پُر امن احتجاج تک اپنی آواز دنیا تک پہنچا رہے تھے لیکن ریاست نے اُن کو آئینی حقوق سے دستبردار ہونے کے لیے اپنے پالے ہوئے غنڈوں سے زد کوب کرکے خون میں لَت پَت کردیا، لیکن ریاست شاید یہ بات نہیں جانتی کہ اگر آج وہ اپنے اسلام آباد کی ٹھنڈی ہواؤں میں ایسے شعور یافتہ نوجوانوں پر ظلم ڈھاتا ہے تو کل اُس کو پُرخار پہاڑوں اور گرم پہاڑی چوٹیوں پر بھی اِن ورناؤں کا مقابلہ کرنا ہوگا، اُس دن رحم کی بھیک تو ریاست کے حصے میں آئے گی، کیوں شعوری فیصلوں نے بلوچ ورناؤں کو جُھکنے کی نہیں بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بندوق کے گرجنے کی زبان سے بات کرنے کی ہمت بخشی ہے۔

ظلم وہی کرو جو تُم سہہ سکتے ہو، ناپاک اسلام آباد کے پرفضاء و سکون کی ماحول سے کھٹن و درد بھری اور پر خطر و پاک و مقدس پارود و شور کی پہاڑوں تک سفر شعور ہی ہوسکتا ہے، جو بلوچ ورناؤں کو شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز کرکے تاریخ میں امر کردیتا ہے-

ظلم تو پھر ظلم ہے جب بڑھ جاتا ہے تو ہر دور میں ظالم کے خلاف شہداد و احسان جنم دیتا ہے، جو دشمن کے لیے درد سر بن کر کسی دن قہر ثابت ہو جاتی ہیں-

بلوچ ورنا یہ بات اب سمجھ چُکے ہیں کہ اب صرف “مزاحمت ہی زندگی ہے” اب اسی فلسفے کے پیروکار بنکر کسی محاذ پر احسان و شہداد کی رُوپ میں شہادت کو گَلے لگا رہے ہونگے لیکن یہ ریاست کی بُھول ہوگی کہ کسی ورنا کو اغواء کرکے یا زدکوب کرکے قومی فکر کو اس کے دل سے نکال دیگا، اب یہ منتق بھی ریاست کے گَلے پڑ گیا ہے کہ وہ جتنا ظلم کریگا بلوچ ورنا اُسی رفتار سے اُبھر کر مادر وطن کی حفاظت میں ہنستے ہوئے شہادت کا استقبال کرینگے-

شُور پارود کے شہداء نے بلوچ ورناؤں کا راستہ ہموار کردیا، اب ریاست کے خلاف محاذ پر بندوق اٹھانا ہر شعور یافتہ نوجوان اپنا فرض سمجھ رہا ہے، شہداد و احسان کی قربانی اور عظیم عمل و فکر اور نظریہ ہر با شعور بلوچ طلباء کیلئے ایک مسلسل جدوجہد کی راہ ہے- ریاست کی اس بدمعاشی نے ہزاروں احسان و شہداد ایک جھٹکے میں پیدا کردیئے

اب یہ جنگ بلوچ نوجوانوں کا پیشہ بن چُکا ہے، اب پہاڑوں کے ہر چٹان پر ریاست کی ناکامی لکھی جا چُکی ہے-

جب ظلم ناانصافی قانون بن جائے تو اُس کے خلاف مزاحمت کرنا فرض بن جاتا ہے- وہ علم و شعور کو تقویت دینے کے حمایتیوں کو تشدد اور عقوبت خانوں کی سیر کرائے، اب تو وہ مزاحمت کا راستہ تعین کرنے میں دیر نہیں کرتے – کل جِن کے ہاتھ میں قلم تھا آج کس نے بندوق تھما دیا؟ کل جن کے سینے پر احتجاجی بینر تھا آج کس نے جھاٹہ زیب تَن کروا دیا؟ کل جن کے پاس یہ نعرہ تھا کہ “بلوچ طلباء کے ساتھ نا انصافی بند کرو”، آج ان کو “ہتھیار پھینکو نہیں مارینگے” کا ہَکل کس نے سکھایا-

یہ سب ریاستی جبر، ظلم، تشدد اور ریاستی دہشت گردی کی ستائے ہوئے طلباء ہیں جن کو صرف حقوق بات کرنے پر مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا تھا، جب اِن طلباء کے پاس کوئی اور راستہ نہ ہو تو وہ یہی راستہ اختیار کرینگے، جس کا نام مزاحمت ہے-

ریاست پاکستان کی اِنہی بے دریغ مظالم نے بلوچ ورناؤں کو ایئر کنڈیشن محلات میں رہنے کی بجائے پُرخار پہاڑی دَرّوں پر گھاٹ (پہرہ) دینے کی سِکت بخشی ہے، اب یہ طوفان تھمنے والا نہیں، اب اِس آندھی کی بَل کھاتی ہوئی تیز ہوائیں دُشمن کی ایئرکنڈیشنڈ محلات میں بھی سُکون حرام کردیگا-

بلوچ نوجوان اپنی ذات کیلئے اضافی آرام و آسائش کے خواہاں نہیں ہیں، بلکہ انہوں نے سوچ سمجھ کر یہ پُر تکلیف راستہ اختیار کیا ہے کہ یہ جنگ اب ہم پر فرض کی جاچُکی ہے، ہم آزادی کی پُر آسائش زندگی دیکھ سکینگے یا نہیں، لیکن ہماری جیت ہماری موت (شہادت) میں پِنہاں ہے-

شہداء پارود نے ایک بار پھر شہید امیر جان، شہید شیرا، شہید گزین، شہید ماما شمس، شہید ڈاکٹر شعیب، شہید ظفر جان کی یاد تازہ کرکے دشمن کو پھر سے پیغام دیا کہ ابھی یہ وطن یہ پہاڑ لاوارث نہیں کہ تُم پانے ناکام عزائم کو لے کر اپنی پلید قدموں سے روند کر سکون سے واپس چلے جاؤگے، بلکہ سابقہ شہداء شُور پارود کی بندوقیں تھامی ہوئی ہیں، اُن کو گرنے نہیں دیا گیا ہے-

دشمن کو یہ جان لینا چاہیئے کہ اب اس راستے پر مختلف چہروں میں احسان و شہداد تمہاری راہ تکتے رہیں گے، پھر یہاں پارود میں وہ نعرہ سُننے کو نہیں ملیگا کہ “انصاف دو” بلکہ بندوق کی گرج میں تمھاری ناکامی کی داستانیں لکھی جائیں گی اور صرف ایک ہی نعرہ سننے کو ملیگا کہ ” ہاں میں باغی ہوں میں باغی ہوں، اس محکوم قوم کا سپاہی ہوں’


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔