بلوچ قومی مزاحمت کا ایک ستون: سینٹرل کمانڈر باسط زہری عرف قاضی انتقال کر گئے ۔ بی ایل اے

171

بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی ایل اے کے سینٹرل کمانڈر، اعلیٰ ترین ادارے سینئر کمانڈ کونسل کے بانی و فعال کمانڈر، اور تنظیمی تشکیل نو کے معمار، باسط زہری عرف قاضی کے انتقال کی خبر نہایت افسوس اور رنج کے ساتھ بلوچ قوم کو دی جا رہی ہے۔ آپ 26 جون 2025 کو شدید علالت کے بعد اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ یہ خبر بیک وقت ایک شخص کی جدائی کا دکھ ہے، ایک عہد کا اختتام ہے، اور ایک ایسی نظریاتی، عسکری اور تنظیمی بنیاد کی یاد دہانی ہے جو آج بلوچ قومی مزاحمت کو دنیا کی ایک طاقتور اور مربوط تحریک کے طور پر نمایاں کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ باسط زہری کا مزاحمتی سفر محض ایک شخص کا فیصلہ نہیں، بلکہ نوآبادیاتی جبر، سرداری استبداد اور قومی ذلت کے خلاف وہ اجتماعی شعور تھا، جسے انہوں نے ایک فرد کی حیثیت میں اخذ کیا اور پھر اسے ادارتی بنیادوں پر مزاحمت کے قالب میں ڈھال دیا۔ ان کی پیدائش 1981 میں خضدار کے نواحی علاقے زہری میں ہوئی۔ باسط زہری نے نوجوانی میں ہی وہ راستہ چنا جو درد، قربانی، اور بے لوث جہد کا راستہ تھا۔ ان کی قومی سوچ اور سیاسی بلوغت نے انہیں 2006 میں بی ایل اے کی صفوں میں شامل کیا۔ ان کا ابتدائی کردار اربن گوریلا کے طور پر خضدار میں ابھرا، لیکن جلد ہی یہ کردار بلوچستان کی شہری جنگی تاریخ کا ایک فیصلہ کن باب بن گیا۔

“خضدار، کوئٹہ، حب چوکی، اور گوادر جیسے اہم شہروں میں اربن گوریلا وارفیئر کی تنظیم سازی، ساخت اور طریقہ کار کو جس جدید رخ پر استوار کیا گیا، وہ براہ راست باسط زہری کی اسٹریٹیجک بصیرت، قیادت اور عسکری مہارت کا نتیجہ تھا۔ آپ صرف کارروائیاں کرنے والے کمانڈر نہیں تھے، بلکہ ایک مکمل اسکول آف تھاٹ تھے، جنہوں نے شہری مزاحمت کو ایک منظم جنگی سائنس بنایا۔ دشمن کی عسکری منصوبہ بندی کو ناکام بنانے، سیکورٹی نیٹ ورک کو مفلوج کرنے، اور دشمن کی اندرونی کمزوریوں کو جنگی حکمت عملی میں بدلنے کا فن باسط زہری کے پاس تھا۔ یہی وہ بنیاد تھی جس نے انہیں بی ایل اے کے صف اول کمانڈران میں شامل کیا، اور انہیں شہید استاد جنرل اسلم بلوچ جیسے نظریاتی و عسکری قائد کا دست راست بنا دیا۔”

“سنہ 2010 کے بعد باسط زہری پہاڑی محاذ پر منتقل ہوئے، جہاں انہوں نے اپنی جنگی قیادت، نیٹ ورکنگ، اور نظریاتی تربیت کو ایک وسیع تناظر میں استعمال کیا۔ بلوچستان کے مختلف پہاڑی ریجنز میں ہونے والی درجنوں بڑی کارروائیوں کی منصوبہ بندی، کمانڈ اور انٹیلیجنس کی تنظیمِ نو ان ہی کی نگرانی میں ہوئی۔ 2018 میں جب شہید جنرل اسلم بلوچ کی قیادت میں بی ایل اے کی تنظیم نو کی گئی اور تحریک کو ایک جدید، ادارتی، اور اسٹریٹیجک ڈھانچے میں ڈھالا گیا، تو باسط زہری اس عمل کے کلیدی معماروں میں شامل تھے۔ انہیں سینٹرل کمانڈر کی ذمہ داری سونپی گئی، اور وہ بی ایل اے کے اعلیٰ ترین ادارے سینئر کمانڈ کونسل کے رکن منتخب ہوئے، جس حیثیت سے وہ اپنی آخری سانس تک متحرک اور فعال رہے۔”

“اسی دوران 2018 میں وہ شدید گردوں کے عارضے میں مبتلا ہوئے۔ ان کے دونوں گردے ناکارہ ہو گئے، اور طویل جدوجہد کے بعد ان کا ٹرانسپلانٹ ممکن ہوا۔ لیکن یہ بیماری ان کے عزم، کام یا جدوجہد کے راستے میں حائل نہ ہو سکی۔ وہ دورانِ علالت بھی بی ایل اے کی تنظیم سازی، عسکری امور، اور فکری منصوبہ بندی میں اسی شدت سے شریک رہے جس طرح ایک صحت مند سرمچار ہوتا ہے۔ ان کا یہ مزاحمتی رویہ نہ صرف نوجوانوں کے لیے مثال بنا بلکہ قیادت کے معنی ہی بدل دیئے۔”

“باسط زہری عرف قاضی کا وژن محض جنگی یا عسکری نہیں تھا، وہ بی ایل اے کو ایک متبادل قومی ریاستی ڈھانچے کے طور پر دیکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر مزاحمت ایک سائینسی، فکری، اور تکنیکی بنیاد پر استوار نہ ہو تو وہ محض ردِ عمل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے انہوں نے بی ایل اے کو ایک منظم ادارے کی حیثیت سے قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کی نگرانی میں ہائی ٹیک، فنانس، میڈیا، تربیت، انٹیلیجنس، ریسرچ، ٹیکنالوجی، اور سیاسی رابطوں جیسے کئی غیر عسکری محاذوں کو مربوط و مستحکم کیا گیا۔ یہی وہ ادارتی سوچ تھی جس نے بی ایل اے کو بلوچستان کی سب سے مضبوط اور منظم مزاحمتی قوت میں تبدیل کیا۔”

ترجمان نے کہا کہ ان کی جدوجہد کا ایک اہم پہلو ان کی ذاتی قربانیوں پر مبنی ہے۔ ریاست نے ان کے خاندان کو ہدف بنا کر انہیں کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ 2010 میں ان کے 12 سالہ بھائی مجید زہری کو شہید کیا گیا۔ 2011 میں ان کے والد محمد رمضان زہری کو خفیہ اداروں نے شہید کر دیا۔ سنہ 2012 میں ان کے 21 سالہ بھائی شہید عبدالحئی عرف نثار زہری ایک مشن کے انجام دہی کے دوران شہید ہوئے۔ 2014 میں ان کے دو کزن عبدالصمد زہری اور شیر محمد زہری دشمن سے ایک طویل مقابلے میں پھلین شہید امیرالملک قلندرانی کے ساتھ شہید ہوئے۔ بعد ازاں ان کے خالہ زاد بھائی شہید ٹِک تیر ضیاالرحمان زہری عرف دلجان نے دشمن سے لڑتے ہوئے، آخری گولی کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے، اپنی آخری گولی خود پر چلا کر شہادت قبول کی۔ اسی برس ایک اور خالہ زاد، راشد حسین، دبئی سے اغوا کر کے پاکستان کے حوالے کیے گئے، اور وہ تاحال لاپتہ ہیں۔ بعد ازاں ان کے بڑے بھائی عبدالحفیظ زہری کو بھی ریاستی اداروں نے اغوا کیا، اور خاندان کے دیگر افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ لیکن ان تمام قربانیوں، اذیتوں اور صدمات کے باوجود باسط زہری کی نظریاتی استقامت، مزاحمتی شعور اور تنظیمی عزم میں کوئی لغزش نہ آئی۔ وہ نہ صرف خود مضبوط رہے بلکہ بی ایل اے اور بلوچ قومی مزاحمت کو ایک ایسا نظریاتی، عسکری اور ادارتی تسلسل دے گئے جس کی جڑیں اب ناقابلِ شکست ہو چکی ہیں۔

“بلوچ لبریشن آرمی کے سینٹرل کمانڈر باسط زہری عرف قاضی کی وفات سے تنظیم صرف ایک جنگی کمانڈر سے محروم نہیں ہوئی، بلکہ ایک ایسی فکری، ادارہ جاتی، اور نظریاتی بنیاد سے بھی جدا ہوگئی ہے جس نے بی ایل اے کے غیر عسکری شعبہ جات کو مستقبل بین وژن کے ساتھ استوار کیا۔ وہ ان چند کمانڈران میں سے تھے جنہوں نے مزاحمت کو محض بندوق کے دائرے میں محدود رکھنے کے بجائے اسے ریاست سازی کی طرف بڑھانے کی بنیاد فراہم کی۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک مزاحمتی تنظیم کو محض عسکری قوت کے طور پر نہیں بلکہ ایک ڈی فیکٹو ریاستی متبادل کے طور پر منظم ہونا چاہیے، جس کے پاس سویلین ادارے، پالیسی ساز مراکز، اور سائبر دفاعی مہارتیں بھی ہوں۔ یہی وژن اُن کے کام میں جھلکتا رہا، اور اسی وژن نے انہیں تنظیم کی فیصلہ ساز کونسل میں ایک مستقل، فیصلہ کن آواز میں ڈھالا۔”

“ان کے عملی وژن کا ایک اور اہم پہلو نئی نسل کی تنظیم میں شمولیت کے لیے ادارہ جاتی اقدامات تھے۔ وہ ذاتی طور پر سینکڑوں نوجوانوں سے رابطے میں رہے، ان کی سیاسی تربیت، جنگی تربیت، اور تنظیمی انضمام کو براہ راست مانیٹر کرتے رہے۔ صرف بی ایل اے ہی نہیں، بلکہ بلوچ مزاحمتی تحریک میں نئی نسل کو فکری و عملی طور پر تیار کرنے والے ادارہ جاتی خاکے بھی اُن کے دماغ کی پیداوار تھے۔ وہ صرف جنگجو نہیں، بلکہ فکری رہنما بھی تھے، جو نوجوانوں سے گفت و شنید کرتے، ان کے سوالوں کے جوابات دیتے، اور ان کے اندیشوں کو سیاسی پختگی میں بدلتے۔”

“باسط زہری عرف قاضی اپنی ذاتی زندگی میں بھی ایک مثال تھے۔ وہ سادہ طبیعت، عاجز مزاج، اور بےحد نرم لہجے کے مالک تھے، لیکن فیصلہ سازی میں غیر متزلزل اور انتہائی واضح تھے۔ آپ بی ایل اے میں ساتھیوں کے لیے صرف کمانڈر نہیں بلکہ بھائی، استاد اور دوست کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے، ان کے فیصلے مشاورت سے طے ہوتے، اور ان کے حکم میں نہ جذباتی جھکاؤ ہوتا نہ سختی کا زعم۔ ان کی شخصیت نے مزاحمت کو انسانی رنگ دیئے، ایک ایسی مزاحمت جو صرف دشمن کے خلاف بندوق نہ اٹھائے بلکہ اپنے لوگوں کے ساتھ برابری سے کھڑی ہو۔”

“ان کی مزاحمتی فکر میں سائنس اور تحقیق کو غیرمعمولی مقام حاصل تھا۔ وہ تسلسل سے کہا کرتے کہ آنے والی جنگیں علمی و تکنیکی محاذ پر لڑی جائیں گی، اور جو قوم ان محاذوں پر پیچھے رہ جائے گی، وہ بندوق سے بھی فتح حاصل نہ کر پائے گی۔ اسی فکر کے تحت انہوں نے ریسرچ، اسٹریٹجی و ٹیکٹیکس، سائبر سیکیورٹی، مواصلاتی ڈسپلن، اور فزیکل و الیکٹرانک انٹیلیجنس کے شعبوں میں تنظیم کو ترقی دی۔ انہوں نے بی ایل اے کے نیٹ ورکس کو غیرمرئی بنانے کے لیے جدید طریقہ کار اپنایا اور انفارمیشن وارفیئر کو تنظیمی جنگی پالیسی کا جزو قرار دیا۔ وہ ہائی ٹیک دور کے مزاحمتی ماڈل کو سمجھتے اور اس کے مطابق بی ایل اے کو ڈھالنے پر یقین رکھتے تھے۔”

ترجمان نے کہا کہ ان کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ مزاحمت کو جذبات نہیں، فہم و بصیرت سے چلاتے تھے۔ ان کی رہنمائی میں بننے والی ہر پالیسی میں وقتی جوش نہیں بلکہ طویل المدت حکمت عملی ہوتی۔ وہ ریاستی نفسیات، دشمن کے رویے، اور بین الاقوامی رجحانات کو پڑھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔

“بلوچ لبریشن آرمی نے اپنے سینئر کمانڈر عبدالباسط زہری عرف قاضی کی انقلابی خدمات کے اعتراف میں تنظیم کے ایک اہم عسکری یونٹ کو اُن کے نام سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ محض تعزیتی علامت نہیں بلکہ ایک عملی اقدام ہے جس کے ذریعے بی ایل اے اپنی تنظیمی ساخت، ادارہ جاتی تسلسل، اور فکری میراث کو نئی نسلوں تک منتقل کرنے کے اصول پر عمل پیرا ہے۔ اس یونٹ کی ذمہ داریاں، نام، دائرہ کار اور قیادت کی تفصیلات بہت جلد بلوچ عوام کے سامنے رکھی جائیں گی۔”

“عبدالباسط زہری عرف قاضی کی شہادت محض ایک شخصی سانحہ نہیں، بلکہ یہ بلوچ قومی مزاحمت کے ایک ایسے باب کا اختتام ہے جس نے بی ایل اے کو محض ایک تنظیم سے ایک ادارہ، ایک قوت، اور ایک متبادل نظام میں ڈھالنے کا کام کیا۔ وہ نہ صرف ایک عسکری قائد تھے، بلکہ ایک فکری انجنیئر، ایک تنظیم ساز اور ایک انقلابی معمار بھی تھے۔ اُن کی جدوجہد کا دائرہ میدان جنگ سے لے کر سیاسی تنظیم سازی، فکری منصوبہ بندی اور سائنسی مزاحمتی ڈھانچے کی تعمیر تک پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنی بیماری، ذاتی نقصان، اور ریاستی جبر کے باوجود جس عزم، بصیرت اور وقار سے اپنی جدوجہد جاری رکھی، وہ بلوچ نوجوانوں کے لیے ایک مستقل معیار بن چکا ہے۔

“قاضی کی زندگی نے یہ ثابت کیا کہ مزاحمت محض ہتھیار اٹھانے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک نظم ہے، ایک مقصدی زندگی ہے، ایک فکری سمت ہے جسے ہر نسل کو سیکھنا اور اپنانا ہوگا۔ ان کی سیاسی پختگی، تنظیمی تدبر، اور اخلاقی ساکھ نے بی ایل اے کو داخلی استحکام اور بیرونی اثر پذیری کے درمیان توازن عطا کیا۔ وہ مزاحمتی تحریک کے ان قائدین میں سے تھے جنہوں نے جذباتی نعروں کے بجائے فکری ڈھانچے، حکمت عملی، اور ادارہ جاتی بنیادوں پر زور دیا۔”

“عبدالباسط زہری عرف قاضی کی شہادت کے ساتھ بی ایل اے ایک عہد کو الوداع کہہ رہی ہے، مگر اس عہد کا نظریہ، اس کی تعمیر، اور اس کا وژن تنظیم کے ہر محاذ پر زندہ ہے۔”

جیئند بلوچ نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی یہ واضح کرتی ہے کہ قاضی کی جدوجہد، فکری ورثہ اور تنظیمی بصیرت کو ایک یونٹ یا ایک تعزیتی بیان تک محدود نہیں رکھا جائے گا، بلکہ اُن کے منصوبوں، پالیسیوں، اور اداروں کو تحریک کے تمام شعبوں میں وسعت دی جائے گی۔ اُن کی شہادت ہمیں صرف غم نہیں دیتی، بلکہ ہمیں ایک ذمے داری سونپتی ہے، اس مشن کو مکمل کرنے کی ذمے داری جس کا وہ دو دہائیوں تک امین رہے۔