بلوچ کارکنان کا دی ہیک میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ ایٹمی تجربات کے خلاف نعرہ بازی۔
بلوچ نیشنل موومنٹ نے 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے علاقے چاغی میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں کے خلاف نیدرلینڈز اور برطانیہ میں احتجاجی مظاہرے اور آگاہی پروگرامز کا انعقاد کیا۔
نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں بی این ایم کے کارکنان اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے پاکستانی سفارتخانے کے سامنے ایک مظاہرہ کیا۔
اس موقع پر بلوچ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر بلوچستان میں ایٹمی تجربات، جبری قبضے، اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف نعرے درج تھے، شرکاء نے چاغی میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں بلوچستان کی جبری الحاق اور آزادی کی جدوجہد کے حق میں نعرے بازی بھی کی۔
مظاہرے سے بی این ایم نیدرلینڈز چیپٹر کے صدر مہیم عبدالرحیم، ڈاکٹر لطیف بلوچ، واحد بلوچ، عصا بجار، زہرہ بلوچ اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکن زر خان نے خطاب کیا۔
مقررین نے کہا کہ چاغی کے پہاڑی علاقے میں کیے گئے ایٹمی تجربات کے بعد زمین، پانی اور فضا میں تابکاری کی سطح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے جس کے اثرات مقامی آبادی پر آج بھی مرتب ہو رہے ہیں، ان کے مطابق جلدی امراض، سانس کی بیماریاں، بینائی میں کمی اور کینسر جیسی مہلک بیماریاں عام ہو چکی ہیں جبکہ کئی خاندان تابکاری کے خوف سے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج تک کسی عالمی ادارے یا انسانی حقوق کی تنظیم نے ان تجربات کی آزاد اور غیرجانبدار سائنسی تحقیقات نہیں کیں۔
مقررین نے کہا کہ جہاں دنیا کے دیگر حصوں میں ایٹمی تجربات سے قبل مکمل حفاظتی اقدامات اور تحقیقاتی شفافیت اختیار کی جاتی ہے وہیں بلوچستان میں نہ صرف یہ تجربات خفیہ انداز میں کیے گئے بلکہ بعض رپورٹس کے مطابق پاکستان نے اپنے جوہری ہتھیار بھی بلوچ سرزمین پر ذخیرہ کر رکھے ہیں اگر کسی وقت تابکاری کا اخراج ہوا تو سب سے زیادہ نقصان بلوچ عوام کو ہوگا۔
انہوں نے اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان اداروں نے پاکستان کے اقدامات پر خاموشی اختیار کی ہے۔
بی این ایم کے مطابق اسی مناسبت سے برطانیہ میں پارٹی کے زیرِ اہتمام ایک تربیتی ورکشاپ منعقد ہوئی جس میں کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی ورکشاپ میں بلوچستان میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں کے سائنسی، انسانی اور سیاسی اثرات پر روشنی ڈالی گئی۔
مقررین نے کہا کہ ان دھماکوں کے ذریعے بلوچ سرزمین کو محض تجرباتی میدان کے طور پر استعمال کیا گیا جس کا مقصد صرف دفاعی کامیابی نہیں بلکہ بلوچ قوم کو خاموشی سے تباہی کی طرف دھکیلنا تھا۔
انھوں نے کہا کہ یہ تجربات نوآبادیاتی ذہنیت کے عکاس ہیں اور بلوچ عوام کی مرضی کے برخلاف کیے گئے۔
ورکشاپ کی میزبانی بی این ایم یوکے چیپٹر کے سیکریٹری کمبر بخشی اور دوستین بلوچ نے کی، جبکہ سلیم بلوچ، یوسف بلوچ، احمد بلوچ، بلال بلوچ، بجار علی، غفار بلوچ اور شعیب نعمت نے موضوع پر خطاب کیا۔