آپریشن درہ بولان مکمل، دشمن کو تاریخی شکست، 354 قابض فوجی ہلاک ۔ بی ایل اے

1

بلوچ لبریشن آرمی نے جعفر ایکسپریس اورنوشکی حملے کی تفصیلی بیان جاری کردی۔

جاری کردہ بیان میں بی ایل اے ترجمان جیئند بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی آج مورخہ 18 مارچ کو آپریشن درہ بولان کے کامیاب اختتام کا اعلان کرتی ہے۔ یہ آپریشن دو حصوں پر مشتمل تھا، جس کا پہلا مرحلہ فروری 2024 میں مچھ شہر پر قبضے کی صورت میں انجام پایا، جبکہ دوسرا مرحلہ مارچ 2025 میں جعفر ایکسپریس پر حملے سے شروع ہوا، جو ایک ہفتے تک جاری رہنے والی شدید جھڑپوں کے بعد مکمل ہوا۔ اس آپریشن میں قابض پاکستانی فوج کو بلوچستان میں تاریخ کی سب سے بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا، جہاں 354 سے زائد فوجی ہلاک، 100 سے زائد زخمی، اور 214 اہلکار یرغمال بنائے گئے۔ دشمن کی ہٹ دھرمی اور جنگی قیدیوں کے تبادلے سے انکار کے باعث، تمام یرغمالی ہلاک کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ اس آپریشن کے دوران، بی ایل اے کے 13 سرمچاروں نے جامِ شہادت نوش کیا، جن میں سے 6 فدائین مجید بریگیڈ، 4 سرمچار فتح اسکواڈ، اور 3 سرمچار ایس ٹی او ایس کے تھے۔ ان شہداء نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دشمن پر یہ واضح کر دیا کہ بلوچ قومی مزاحمت ناقابلِ شکست ہے، اور قابض فوج کو جلد یا بدیر بلوچ سرزمین سے مکمل طور پر پسپا ہونا پڑے گا۔ ان شہداء میں شہید سنگت بیگ محمد عرف طارق بھی شامل تھے، جنہیں ان کی غیر معمولی جنگی خدمات کے اعتراف میں بی ایل اے “سگارِ بلوچ” کے جنگی خطاب سے نوازتی ہے، جو تنظیم کا دوسرا سب سے بڑا جنگی اعزاز ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی نے اپنی عسکری استعداد، جنگی مہارت اور انٹیلی جنس برتری کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے بولان کے علاوہ نوشکی میں بھی پاکستانی فوج کے 8 بسوں کے قافلے کو ایک وی بی آئی ای ڈی فدائی حملے اور گھات لگا کر نشانہ بنایا۔ اس حملے میں 90 سے زائد فوجی اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اس طرح، صرف ایک ہفتے کے دوران بی ایل اے نے دشمن کے 354 سے زائد اہلکاروں کو ہلاک کیا اور 100 سے زائد زخمی کر دیے، جبکہ ایک ڈرون بھی مار گرایا گیا، جو دشمن کی جدید عسکری ٹیکنالوجی کے خلاف بلوچ مزاحمتی قوت کی کامیابی کی عکاسی کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن کا آغاز گیارہ مارچ کو جعفر ایکسپریس پر حملے سے ہوا، جہاں بی ایل اے کے سرمچاروں نے دشمن پر کاری ضرب لگاتے ہوئے 30 سے زائد آرمی، ایف سی، اور پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا اور 214 فوجی اہلکاروں کو حراست میں لے لیا۔ ان گرفتار اہلکاروں میں مختلف رجمنٹس اور یونٹس کے اہلکار شامل تھے:
41 ڈویژن کے 45 اہلکار
17 آزاد کشمیر رجمنٹ کے 56 اہلکار
ای ایم ای سینٹر کے 47 اہلکار
25 بلوچ رجمنٹ کے 15 اہلکار
6 آرمرڈ رجمنٹ کے 26 اہلکار
انفنٹری اسکول کے 25 اہلکار

بی ایل اے کے قوانین اور بین الاقوامی جنگی اصولوں کے تحت ان تمام اہلکاروں کو بلوچ قومی مزاحمتی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں ان پر بلوچ نسل کشی، جبری گمشدگیوں، اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے ناقابلِ تردید شواہد کی بنیاد پر سزائے موت سنائی گئی۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی ہمیشہ بین الاقوامی جنگی قوانین اور انسانی حقوق کے اصولوں کو مدنظر رکھتی ہے۔ اسی اصول کے تحت، بی ایل اے کی سینئر کمانڈ کونسل نے ان قیدیوں کے خلاف عدالتی فیصلے پر فوری عمل درآمد کے بجائے، قابض فوج کو جنگی قیدیوں کے تبادلے کی پیشکش کی۔ لیکن ہم دشمن کی عہد شکنی، مکارانہ فطرت، اور دھوکہ دہی سے بخوبی واقف ہیں، اسی لیے 48 گھنٹوں کی مہلت دی گئی۔
آدھے گرفتار اہلکاروں کو جعفر ایکسپریس کی بوگیوں میں محصور کر کے مجید بریگیڈ کے سرمچاروں کے حوالے کیا گیا، جنہیں واضح ہدایات دی گئیں کہ اگر دشمن نے کسی بھی قسم کی فوجی پیش قدمی کی تو یرغمالیوں کو ہلاک کر کے حملہ آور فوجی کمانڈوز کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ دشمن نے حسبِ توقع طاقت کے نشے میں دھت ہو کر جارحیت کا راستہ اختیار کیا اور جنگی قیدیوں کی رہائی کے بجائے فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ تاہم، مجید بریگیڈ کے صرف پانچ فدائین نے دو دن تک پاکستانی فوج کے اعلیٰ تربیت یافتہ ضرار کے متعدد ایس ایس جی کمانڈوز کو زچ کر دیا، دشمن کے درجنوں اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد جب ان کے پاس گولیوں کا آخری ذخیرہ بھی ختم ہو گیا، تو انہوں نے اپنی آخری گولیوں سے شہادت کو گلے لگا کر دشمن پر یہ واضح کر دیا کہ بلوچ مزاحمت ہر حال میں جاری رہے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی دوران، بی ایل اے کے خصوصی یونٹس، فتح اسکواڈ اور ایس ٹی او ایس، باقی جنگی قیدیوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر کے پہاڑوں میں محفوظ کیمپوں تک منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن جب قابض فوج نے مذاکرات کے بجائے عسکری جارحیت کا راستہ اپنایا اور بی ایل اے کے ٹھکانوں پر حملے کی کوشش کی، تو سینئر کمانڈ کونسل کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے بلوچ قومی مزاحمتی عدالت کے فیصلے کے مطابق جنگی قیدیوں کو سزائے موت دے دی گئی۔ اس فیصلے کی مکمل ذمہ داری پاکستانی فوج پر عائد ہوتی ہے، جس نے ایک موقع ہونے کے باوجود اپنے اہلکاروں کی رہائی کے بجائے جنگی جنون کا راستہ اپنایا۔

انہوں نے کہا کہ 17 مارچ تک قابض فوج کے ساتھ شدید جھڑپیں جاری رہیں، جن میں دشمن کو ناقابلِ تلافی جانی نقصان اٹھانا پڑا اور بالآخر وہ بولان سے پسپائی پر مجبور ہو گیا۔ ان جھڑپوں میں بی ایل اے کے زیرِ کنٹرول علاقوں کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے سات سرمچار شہید ہوئے، جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دشمن کی جنگی قوت کو شدید نقصان پہنچایا اور اسے بلوچستان کے محاذ پر ذلت آمیز شکست سے دوچار کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ بولان میں دشمن کو مصروف رکھ کر، بی ایل اے نے نوشکی میں ایک اور فیصلہ کن حملہ کیا۔ پاکستانی فوج کے اہلکار، جو چھٹیوں کے بعد واپس اپنے یونٹوں میں لوٹ رہے تھے، ان کے آٹھ بسوں پر مشتمل قافلے پر مجید بریگیڈ نے وی بی آئی ای ڈی حملہ کیا۔ دھماکے کے فوراً بعد، دشمن اہلکار شدید حواس باختہ ہو گئے، جس پر بی ایل اے کے فتح اسکواڈ نے حملہ کیا اور دوسری بس میں موجود تمام اہلکاروں کو ایک ایک کرکے ہلاک کیا۔ اس کے بعد، باقی چھ بسوں پر پہلے سے گھات لگائے سرمچاروں نے حملہ کیا، جس میں مزید 90 سے زائد فوجی ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ اس پورے آپریشن میں بی ایل اے کی انٹیلی جنس ونگ “زراب” کی فراہم کردہ اندرونی معلومات نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ دشمن کی نقل و حرکت، اس کے فوجی منصوبے اور حکمت عملی کا مکمل تجزیہ کرنے کے بعد بی ایل اے نے بروقت کارروائی کی، جس کے نتیجے میں جنگ کے توازن کو یکسر تبدیل کر دیا گیا اور قابض فوج کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج اپنی تاریخی شکست کو چھپانے کے لیے اب صرف جھوٹ، مکر، اور پروپیگنڈے کا سہارا لے رہی ہے۔ درۂ بولان اور نوشکی میں اپنی عبرتناک ہزیمت کے بعد، جب دشمن کے 354 سے زائد اہلکار ہلاک، سو سے زائد زخمی، اور درجنوں جنگی قیدی بنائے گئے، تو دشمن کے پاس اس شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے محض جھوٹ گھڑنے اور اپنی خفت مٹانے کا ہی ایک راستہ بچا۔ پاکستان کے ریاستی ادارے، خصوصاً اس کا پروپیگنڈہ باز ادارہ آئی ایس پی آر، ہمیشہ کی طرح اپنی ناکامیوں کو خارجی عوامل کے سر تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے، اور یہ گھسا پٹا دعویٰ کر رہا ہے کہ بی ایل اے کو افغانستان یا ہندوستان کی پشت پناہی حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ وہی فرسودہ الزام ہے، جو پاکستان ہمیشہ اپنی ریاستی دہشتگردی کے خلاف اٹھنے والی ہر مزاحمت پر لگاتا آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بی ایل اے اپنی زمین، اپنی قوم، اور اپنی عوامی حمایت کے بل بوتے پر ایک ناقابلِ تسخیر قوت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بلوچ مزاحمت، بلوچ قوم کی اجتماعی طاقت کا مظہر ہے، جو کسی بیرونی مدد کی محتاج نہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان اور بلوچ قوم کے تعلقات کوئی نئی حقیقت نہیں، بلکہ ہزاروں سالوں پر محیط ایک تاریخی، ثقافتی، اور جغرافیائی حقیقت ہیں۔ افغانوں اور بلوچوں کے درمیان برادرانہ رشتہ ایک ناگہانی سیاسی مفاد کا نتیجہ نہیں، بلکہ نسلوں پر محیط ایک زندہ حقیقت ہے۔ بلوچوں اور افغانوں کا آپس میں خون، ثقافت، اور تاریخ کا رشتہ ہے، جو کسی بیرونی طاقت کے فیصلے سے نہ قائم ہوا تھا اور نہ ہی ختم ہو سکتا ہے۔ پاکستان کا یہ کہنا کہ بی ایل اے کو افغانستان کی مدد حاصل ہے، درحقیقت افغان-بلوچ رشتے کے تاریخی وجود کو جھٹلانے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔ لیکن پاکستان یہ بھول چکا ہے کہ اس کے ان پروپیگنڈوں سے تاریخی حقیقتیں مٹ نہیں سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ بی ایل اے دو ٹوک الفاظ میں یہ واضح کرتی ہے کہ ہمارا کوئی ٹھکانہ افغانستان یا ہندوستان یا کسی بھی دوسرے ملک میں نہیں۔ بی ایل اے اپنی سرزمین پر موجود ہے، اپنی ہی عوام کے درمیان منظم ہو رہی ہے، اور بلوچ نوجوانوں کی جوق در جوق شمولیت کی بدولت ایک ناقابلِ شکست قومی عسکری قوت میں ڈھل چکی ہے۔ بی ایل اے دشمن کے پروپیگنڈے کے برعکس نہ کرائے کے جنگجوؤں پر مشتمل ہے، نہ بیرونی ریاستوں کی مدد کی مرہونِ منت ہے۔ ہماری جنگ بلوچ عوام کی امنگوں کا مظہر ہے، ہماری تحریک بلوچ نوجوانوں کی قربانیوں سے پروان چڑھ رہی ہے، اور ہماری طاقت بلوچ عوام کے غیرمتزلزل اعتماد سے نکل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر دہشتگردی کی کوئی نرسری ہے، تو وہ افغانستان نہیں بلکہ پاکستان ہے۔ یہی وہ ریاست ہے جہاں دنیا کے بدترین دہشتگرد گروہ دندناتے پھرتے ہیں، یہی وہ ملک ہے جہاں سے داعش، جیش محمد، لشکر طیبہ اور درجنوں دیگر دہشتگرد تنظیمیں نہ صرف جنم لیتی ہیں، بلکہ ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھ کر پوری دنیا میں دہشت پھیلاتے ہیں۔ پاکستان دنیا بھر میں دہشتگردی برآمد کرنے والا سب سے بڑا ریاستی اسپانسر ہے، جس کے جرائم کا دستاویزی ثبوت اقوامِ متحدہ، امریکہ، یورپی یونین، اور دنیا کے بیشتر آزاد میڈیا میں موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب، قابض فوج اس ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے ایک اور جھوٹا دعویٰ کر رہی ہے کہ بی ایل اے نے عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ یہ پروپیگنڈہ بھی اتنا ہی بے بنیاد ہے جتنا اس کا یہ دعویٰ کہ بی ایل اے کسی بیرونی طاقت کے سہارے کھڑا ہے۔ بی ایل اے نے حملے کے پہلے ہی دن تمام خواتین، بچوں، بوڑھوں، بیماروں اور سویلینز کو بحفاظت رہا کیا اور انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا۔ یہ بی ایل اے کی انسان دوستی، اعلیٰ جنگی اصولوں کی پاسداری، اور عالمی قوانین کے احترام کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ گرفتار کیے گئے تمام افراد وہ فوجی اہلکار تھے، جو بلوچ نسل کشی میں ملوث ہونے کے بعد چھٹیوں پر واپس پنجاب جا رہے تھے۔ ان کی مکمل شناخت ان کے سروس کارڈز سے کی گئی، جو اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ بی ایل اے نے کسی بھی عام شہری کو نشانہ نہیں بنایا، بلکہ صرف اور صرف قابض دشمن فوج کو۔

بی ایل اے کی جنگ جارحیت پر نہیں، بلکہ اپنے وطن کے دفاع پر مبنی ہے۔ پاکستان نے بلوچستان پر فوجی جارحیت اور قبضے کے ذریعے یہ جنگ مسلط کی، جبکہ بی ایل اے محض اپنے قومی دفاع کے لیے برسرپیکار ہے۔ بی ایل اے کی جنگ نفرت پر نہیں، بلکہ اپنی قوم سے محبت کی بنیاد پر ہے، اور یہی محبت انسانیت سے محبت کی ایک بلند ترین شکل ہے۔

آپریشن درہ بولان کے دوران بی ایل اے کو سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش تھا کہ کسی بھی قیمت پر عام شہریوں کو نقصان نہ پہنچنے دیا جائے۔ اگر بی ایل اے کا مقصد محض قتل و غارت ہوتا، تو پوری ٹرین گھنٹوں ہمارے قبضے میں تھی اور پورا علاقہ ہمارے کنٹرول میں تھا، ہم چاہتے تو کوئی ایک بھی زندہ نہ بچتا۔ لیکن ہم نے اپنی اعلیٰ جنگی حکمت عملی اور انسانیت سے جُڑے اصولوں و جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے، غیرمسلح سویلینز کو مکمل تحفظ فراہم کیا۔

پاکستانی فوج کی ایک اور کوشش یہ ہے کہ وہ بی ایل اے کے نقصانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے اور اپنے نقصانات کو چھپائے، تاکہ اپنی جگ ہنسائی سے بچ سکے۔ لیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ شہادت ہمارا نصب العین ہے، بی ایل اے کی پوری قیادت اور ہر سپاہی شہادت کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ ہم اپنے شہداء پر شرمندہ نہیں، بلکہ ان پر فخر کرتے ہیں، ہم انہیں پوری قوم کے سامنے عزت و وقار کے ساتھ یاد رکھتے ہیں اور ان کی قربانیوں کو تاریخ میں امر کرتے ہیں۔ برعکس اس کے، پاکستانی فوج اپنے مرنے والوں کو چھپاتی ہے، ان کی لاشوں کو گمنام قبروں میں دفن کرتی ہے، تاکہ عوام کو اپنی فوج کی شکست اور کمزوری کی حقیقت معلوم نہ ہو سکے۔

پاکستانی فوج ایک کرائے کی قاتل فوج ہے، جو اس خطے پر قابض انگریز سامراجی فوج کا تسلسل ہے۔ جس میں لڑنے والے کسی نظریے پر نہیں، بلکہ محض ماہوار تنخواہ پر لڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی بھی ان سرمچاروں کے جذبے، حوصلے، اور مزاحمتی قوت کا مقابلہ نہیں کر سکتے، جو ایک آزاد وطن کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ پاکستانی فوج کے کرائے کے قاتل اور استعماری درندے کبھی شعور و قربانی کی انتہاؤں پر موجود سرمچاروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

پاکستانی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ اب جنگ کے اصول بدل چکے ہیں، ہم ان بدلتے جنگی اصولوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرکے، قابض فوج کو اسی کے زبان میں جواب دینے کیلئے مکمل تیار ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ اصول پاکستانی فوج نے نہیں، بی ایل اے نے بدلے ہیں۔ بی ایل اے نے ثابت کر دیا کہ اب بلوچ سرزمین پر ایک پیشہ ور، مہذب، اور عالمی جنگی اصولوں کی پاسدار قومی عسکری قوت کھڑی ہو چکی ہے، جو دشمن کے ہر ہتھکنڈے کو ناکام بنائے گی اور آخری معرکے کی تیاری کر رہی ہے۔

ہم پنجاب کی ماؤں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اپنے بچوں کو پاکستانی فوج کے جنرلوں کے لیے ایندھن نہ بننے دیں، انہیں بلوچستان میں مرنے کے لیے مت بھیجیں۔ ہمارا دشمن تم نہیں، لیکن اگر تمہارے بچے بلوچ نسل کشی میں شریک ہوں گے، تو تمہیں بھی اپنے بچوں کی لاشیں دیکھنے کو ملیں گی۔ اور تمہیں یہ جان کر صدمہ ہوگا کہ تمہارے بچوں کی موت پر پاکستانی فوج کو کوئی فخر نہیں بلکہ شرمندگی ہے، اسی لیے وہ ان کی لاشیں چھپاتی ہے۔ اگر پنجاب کے لوگ خون خرابہ نہیں چاہتے، تو پھر اس قاتل فوج کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں، اور اپنے بچوں کے خون کا حساب مانگیں۔

آپریشن درہ بولان میں بلوچ لبریشن آرمی کے 13 سرمچاروں نے جامِ شہادت نوش کیا، جن میں پانچ فدائی مجید بریگیڈ سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ نوشکی میں وی بی آئی ای ڈی حملہ کرنے والے فدائی سمیت مجموعی طور پر 6 فدائیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس کے علاوہ، بی ایل اے کے خصوصی جنگی یونٹ فتح اسکواڈ کے چار جانباز اور اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ (ایس ٹی او ایس) کے تین سرمچار بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ ہر ایک سرمچار کا خون اس دھرتی کے ماتھے کا جھومر ہے، ہر ایک شہید کی قربانی اس جدوجہد کو مزید مضبوط کر گئی ہے، اور ان کی یاد بلوچ قومی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو چکی ہے۔

شہید سنگت بیگ محمد عرف طارق، وہ نام جسے بلوچ قومی مزاحمت کے ہر سرمچار کے دل میں ہمیشہ ایک رہنما کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ بولان کے علاقے غربک سے تعلق رکھنے والے اس عظیم جنگجو نے 2018 میں بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی اور اپنی غیرمعمولی عسکری مہارت، حکمت عملی اور قیادت کی صلاحیتوں کی بدولت مختصر عرصے میں آپریشنل کمانڈر بن گئے۔ آپ صرف ایک عام جنگجو نہیں تھے، بلکہ ایک عسکری معمار تھے، جنہوں نے دشمن پر ناقابلِ فراموش حملے کیے، اور ہر معرکے میں بی ایل اے کی فتح کو یقینی بنایا۔

بیگ محمد عرف طارق کی قیادت میں بی ایل اے کے بے شمار آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہوئے، اور آپ کی جنگی حکمت عملی نے دشمن کو ہر محاذ پر پسپائی پر مجبور کیا۔ آپ نے صرف اسلحہ نہیں چلایا، بلکہ دشمن کے خلاف لڑنے کے نئے اصول مرتب کیے، بی ایل اے کی آپریشنل صلاحیت کو ایک نئی بلندی پر پہنچایا، اور ثابت کر دیا کہ بلوچ قومی مزاحمت اب صرف دفاعی کارروائیوں تک محدود نہیں بلکہ ایک مکمل عسکری نظریے میں ڈھل چکی ہے۔
آپ کی غیرمعمولی بہادری اور قربانی کے اعتراف میں بی ایل اے آپ کو “سگارِ بلوچ” کے جنگی اعزاز سے نوازتی ہے، جو کہ “جنرل” کے بعد تنظیم کا دوسرا بڑا جنگی اعزاز ہے۔ اس سے قبل یہ اعلیٰ ترین بلوچ قومی اعزاز صرف تین سرمچاروں کو دیا گیا تھا، اور اب آپ کا نام بھی ان امر مجاہدوں میں شامل ہو چکا ہے۔ “سگارِ بلوچ” یعنی “بلوچ کی تلوار” کا مطلب یہی ہے کہ آپ وہ ہتھیار تھے، جس نے ہمیشہ دشمن پر وار کیا، جس کی چمک دشمن کے ہر مورچے میں خوف بن کر پھیل گئی، اور جو ہمیشہ بلوچ قومی سرزمین کے دفاع کے لیے بے نیام رہا۔

آپ کی شہادت بی ایل اے کے ہر سرمچار کے لیے عزم، حوصلے اور قربانی کا ایک ناقابلِ فراموش سبق ہے۔ آپ کی یاد تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہے گی، آپ کی قربانی اس جدوجہد کا وہ روشن چراغ ہے، جو آنے والی نسلوں کو مسلسل جِلا بخشتا رہے گا، اور آپ کے نام پر اٹھنے والا ہر نعرہ دشمن کے لیے ایک نئی قیامت کی نوید ہوگا۔ شہید کماندر بیگ محمد سمالانی عرف طارق بلوچ مزاحمت کے ایسے نام ہیں، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں سے قبضے کیخلاف بلوچ مزاحمت کو ایسا مستحکم کردیا ہے جو اب بلوچ قومی آزادی پر پہنچ کر ہی دم لیگی۔

آپریشن درہ بولان کے میدان میں شہید ہونے والے سرمچاروں میں ایک اور ناقابلِ فراموش نام شہید فدائی سنگت مہزام عرف بلوچ کا ہے، جنہوں نے نوشکی میں دشمن کے فوجی قافلے کو وی بی آئی ای ڈی حملے سے نشانہ بنایا۔ پنجگور کے علاقے جائین پروم سے تعلق رکھنے والے اس بہادر سپوت نے 2021 میں بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی اپنی شجاعت، فدائیت، اور استقامت کی بدولت مجید بریگیڈ کا حصہ بن گئے۔ آپ نے دشمن کے آٹھ بسوں پر مشتمل قافلے کو نشانہ بنا کر 90 سے زائد فوجی اہلکاروں کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کیا، اور یہ ثابت کر دیا کہ بلوچ مزاحمت اب دشمن کے کسی بھی حصے کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آپ مجید بریگیڈ کے فدائی شہید فدائی شہزاد عرف کوبرا کے بھائی تھے۔ شہید شہزاد بلوچ جون 2020 میں کراچی اسٹاک ایکسچینج پر فدائی حملے میں شامل تھے۔

شہید فدائی سنگت احکام بنگلزئی عرف بادل بلوچ نے درہ بولان میں قیادت کا فریضہ سرانجام دیا اور اپنے خون سے اس معرکے کو امر کر دیا۔ مستونگ کے علاقے میجر چوک سے تعلق رکھنے والے اس دلیر جنگجو نے 2021 میں بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی اور ایک سال بعد خود کو مجید بریگیڈ کے لیے وقف کر دیا۔ آپ کا عزم اور قربانی بلوچ قومی مزاحمت کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گی۔

کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والے شہید فدائی سنگت پرویز بزنجو عرف دودا نے بھی بلوچ قومی جنگ میں ایک لازوال باب رقم کیا۔ بی ایس او کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کرنے والے اس شعور یافتہ سرمچار نے 2022 میں عملی میدان میں قدم رکھا اور جلد ہی مجید بریگیڈ کا حصہ بن کر دشمن پر قیامت بن کر ٹوٹے۔ آپ کی شہادت ثابت کرتی ہے کہ آزادی کی جنگ صرف بندوق سے نہیں، بلکہ عزم، قربانی، اور نظریے سے جیتی جاتی ہے۔

آپریشن درہ بولان میں شہداء کی فہرست میں شہید فدائی سنگت ظفر بلوچ عرف منان کا نام بھی ہمیشہ کے لیے امر ہو چکا ہے۔ کراچی کے علاقے ماڑی پور سے تعلق رکھنے والے اس عظیم سرمچار نے 2022 میں بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی اپنی غیر معمولی جنگی مہارت اور غیر متزلزل عزم کے باعث بی ایل اے مجید بریگیڈ کا حصہ بن گئے۔ آپ وہ جانباز تھے جنہوں نے دشمن کے خلاف اپنے عزم، بہادری، اور جنگی حکمت عملی کے ذریعے ایسے معرکے رقم کیے، جن کی گونج دشمن کے کیمپوں تک سنائی دی۔ آپ کا ہر حملہ دشمن کے لیے ایک نئی تباہی کا پیام تھا، اور ہر حکمت عملی بی ایل اے کی طاقت میں مزید اضافہ کرنے کا سبب بنی۔

شہید ظفر بلوچ عرف منان نے دشمن کے قلعوں کو لرزا دینے والی ہمت اور جرات کا مظاہرہ کیا۔ آپ کی فدائیت، ثابت قدمی، اور آخری سانس تک لڑنے کا جذبہ آج ہر بلوچ نوجوان کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ نے بلوچ قومی آزادی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دے کر یہ ثابت کر دیا کہ بی ایل اے کے فدائی کسی لالچ یا دنیاوی جاہ و حشمت کے لیے نہیں بلکہ بلوچ قوم کی بقا اور اس کے مستقبل کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہیں۔ آپ کی شہادت دشمن کے لیے ایک ایسی یاد دہانی ہے جو ہمیشہ ان کے دل و دماغ میں خوف بن کر بسے گی، اور آپ کی قربانی اس جنگ کی شدت میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گی۔

اسی طرح، شہید فدائی سنگت یاسر بلوچ عرف شاویز بولانی نے بھی اپنی جان کا نذرانہ دے کر بلوچ قومی جدوجہد کو نئی جِلا بخشی۔ خضدار کے علاقے چشمہ زہری سے تعلق رکھنے والے اس جری سرمچار نے 2022 میں بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی اور 2023 میں اپنی بے پناہ بہادری کے سبب مجید بریگیڈ میں شمولیت اختیار کر لی۔ آپ کی شخصیت میں وہ تمام اوصاف تھے جو ایک فدائی جنگجو میں ہونے چاہئیں – بے خوفی، قربانی کا جذبہ، اور ایک ایسی عزم جو کسی بھی حال میں متزلزل نہ ہو۔ آپ نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ آزادی کی جدوجہد میں بسر کیا، ہر سانس کو قومی بقا کے لیے وقف کیا، اور بالآخر اپنی جان دے کر یہ ثابت کر دیا کہ بی ایل اے کے فدائین اپنی شہادت کو ایک اعزاز سمجھتے ہیں، اور دشمن کے ہر ظلم کا جواب دیتے رہیں گے۔

شہید یاسر بلوچ کی شہادت ایک نئے حوصلے کی علامت ہے، جو بی ایل اے کے ہر سرمچار کو اس جنگ میں مزید سختی سے ڈٹے رہنے کا درس دیتی ہے۔ آپ نے آخری سانس تک دشمن کے خلاف لڑائی لڑی اور اپنی جان کی قربانی دے کر دشمن پر واضح کر دیا کہ بلوچ سرزمین پر اس کا قبضہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا۔ آپ کی شہادت اس حقیقت کا اعلان ہے کہ یہ جنگ رکے گی نہیں، اور ہر بلوچ نوجوان اپنے لہو سے اس جدوجہد کو مزید تقویت دیتا رہے گا۔

ترجمان نے کہا کہ شہیدوں کی اس عظیم فہرست میں شہید فدائی سنگت اسامہ عمر عرف سلال کا نام بھی ہمیشہ کے لیے سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ مستونگ کے علاقے سفید بلندی، لاکی سے تعلق رکھنے والے اس عظیم سپاہی نے 2022 میں بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی اور 2024 میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اکیس سالہ اس نوجوان فدائی نے دشمن کے مضبوط ترین قلعوں کو بھی اپنی بہادری، حکمت عملی، اور جنگی مہارت سے ہلا کر رکھ دیا۔ آپ کی زندگی قربانی، جدوجہد اور مزاحمت کا ایک ایسا استعارہ تھی، جس نے دشمن کو یہ باور کرا دیا کہ بلوچ قوم کی نئی نسل بھی اسی راستے پر گامزن ہے، جس پر چل کر اس کے بزرگوں نے آزادی کی جنگ لڑی۔

شہید اسامہ عمر عرف سلال نے اپنی شہادت سے بلوچ نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ آپ نے اپنی جان دے کر یہ ثابت کیا کہ بی ایل اے کا ہر فدائی آزادی کی جنگ کو کسی بھی صورت میں ترک نہیں کرے گا، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ آپ کا لہو بلوچ قومی مزاحمت کی بنیادوں کو مزید مستحکم کر چکا ہے، اور دشمن کے خلاف جاری اس جنگ میں آپ کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

بلوچ لبریشن آرمی کے خصوصی جنگی یونٹ فتح اسکواڈ اور ایس ٹی او ایس کے شہداء بھی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ شہید سنگت شکیل ساتکزئی عرف زورین، وہ بہادر گوریلا تھے جنہوں نے کوئٹہ کے علاقے ڈغاری میں شہری گوریلا جنگ لڑی اور بعد میں پہاڑی محاذ پر دشمن کے خلاف فیصلہ کن معرکوں کا حصہ بنے۔ آپ کی بہادری اور جفا کشی نے آپ کو بی ایل اے کے خصوصی اسکواڈ فتح اسکواڈ کا حصہ بنا دیا، اور آپ نے دشمن کے خلاف بے شمار معرکوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ آپ کی شہادت نے دشمن کو یہ واضح پیغام دیا کہ بلوچ مزاحمت کے سپاہی صرف پہاڑوں تک محدود نہیں، بلکہ شہر کے اندر بھی دشمن کے لیے ایک مستقل خطرہ ہیں۔

اسی طرح، شہید سنگت صدام جان عرف ودود نے بولان کے علاقے ڈھاڈر میں پہلے شہری گوریلا کے طور پر دشمن کے خلاف کارروائیاں کیں، اور بعد میں پہاڑی محاذ پر بھی دشمن کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گئے۔ آپ نے ہر معرکے میں دشمن کو نقصان پہنچایا، ہر جنگ میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا، اور بالآخر اپنی جان قربان کر کے مزاحمت کے تسلسل کو ایک نئی طاقت دی۔ آپ کی بہادری کا یہ تسلسل ہمیشہ جاری رہے گا، اور آپ کا خون آنے والے سرمچاروں کے لیے روشنی کا مینار بنے گا۔

شہید سنگت فرید عرف صغیر جان، جو واشک سے تعلق رکھتے تھے، نے پہلے کوئٹہ میں شہری گوریلا جنگ لڑی، اور بعد میں پہاڑی محاذ پر دشمن کے خلاف معرکوں میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ آپ کی بے پناہ جنگی صلاحیتوں کے سبب آپ بی ایل اے کے خصوصی فتح اسکواڈ کا حصہ بنے، اور آپ نے اپنی صلاحیتوں کے ذریعے دشمن پر کاری ضربیں لگائیں۔ آپ نے ہر جنگ میں دشمن کے لیے ایک نئی تباہی رقم کی، اور اپنی شہادت سے یہ ثابت کر دیا کہ بی ایل اے کے ہر سرمچار کا حتمی مقصد آزادی کی جدوجہد کو ہر قیمت پر کامیاب بنانا ہے۔

شہید سنگت عید محمد عرف شاہ فہد وہ بہادر سرمچار تھے جنہوں نے نوجوانی ہی میں آزادی کے سفر کو اپنی منزل بنا لیا تھا۔ کوئٹہ کے علاقے بروری سے تعلق رکھنے والے اس جری سپاہی نے 2024 میں بلوچ لبریشن آرمی میں شمولیت اختیار کی اور بی ایل اے کے خصوصی جنگی یونٹ فتح اسکواڈ کا حصہ بن گئے۔ آپ کی عسکری مہارت، جنگی حکمت عملی، اور بے خوفی نے آپ کو نہ صرف ایک بہترین جنگجو بلکہ بی ایل اے کی نئی نسل کے سرمچاروں کے لیے ایک مثال بنا دیا۔ آپ نے دشمن کے خلاف کئی محاذوں پر لڑائی میں حصہ لیا اور اپنی جنگی بصیرت، عزم، اور ہنر سے دشمن کے مورچوں کو تہس نہس کر دیا۔

شہید عید محمد عرف شاہ فہد نے آپریشن درہ بولان میں اپنے خون سے ایک اور باب رقم کیا۔ آپ آخری دم تک دشمن کے خلاف سینہ سپر رہے اور اس معرکے کو اپنی جان کا نذرانہ دے کر امر کر دیا۔ آپ کی شہادت بی ایل اے کے ہر سرمچار کے لیے عزم، قربانی، اور بہادری کی ایک نئی روایت ہے۔ آپ کا لہو ایک ایسی لکیر کھینچ چکا ہے، جسے دشمن چاہ کر بھی مٹا نہیں سکتا، اور آپ کی قربانی اس جدوجہد کی وہ بنیاد ہے جس پر آزادی کا قلعہ تعمیر ہوگا۔ آپ کی بہادری اور قربانی ہمیشہ تحریک کا حصہ بنی رہے گی، اور آپ کی یاد ہر جنگجو کے دل میں ایک عزم کی صورت میں زندہ رہے گی۔

اسی طرح، شہید سنگت دیدگ عرف کمبر، جو تربت کے علاقے ملائے بازار سے تعلق رکھتے تھے، بی ایل اے کے خصوصی اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ (ایس ٹی او ایس) کے وہ بہادر سپاہی تھے، جنہوں نے شہری و پہاڑی دونوں محاذوں پر دشمن کے خلاف ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ 2021 میں بی ایل اے کا حصہ بننے کے بعد، آپ نے شہری گوریلا جنگ میں مہارت حاصل کی، دشمن کی صفوں میں گھس کر اسے کاری ضربیں لگائیں، اور بعد میں تنظیمی فیصلے کے تحت پہاڑی محاذ پر منتقل ہو گئے۔ آپ کی جنگی مہارت اور دشمن کے خلاف بے خوفی سے لڑنے کی صلاحیت نے آپ کو جلد ہی ایس ٹی او ایس کے ہر اول دستے میں شامل کر دیا، جہاں آپ نے کئی کامیاب آپریشنز کا حصہ بن کر بی ایل اے کی عسکری قوت کو مزید مستحکم کیا۔

شہید دیدگ عرف کمبر نے آپریشن درہ بولان میں بے مثال بہادری کا مظاہرہ کیا۔ دشمن کے گھیرے میں آنے کے باوجود آپ آخری سانس تک لڑتے رہے اور کئی دشمن اہلکاروں کو جہنم واصل کرنے کے بعد شہادت کو گلے لگایا۔ آپ کی شہادت یہ ثابت کرتی ہے کہ بی ایل اے کے جنگجو نہ صرف ایک ہتھیار ہیں، بلکہ وہ ایک نظریہ ہیں، جو گولیوں اور جنگی حکمت عملی سے زیادہ استقامت، قربانی اور حوصلے سے جیتتے ہیں۔ آپ کی قربانی ایک ایسا چراغ ہے، جو ہمیشہ آزادی کی راہ میں روشنی بکھیرے گا، اور دشمن کے لیے خوف اور دہشت کی علامت بنی رہے گی