آواران انتظامیہ معاملات حل کرنے کے بجائے ہراساں کررہی ہے۔ لواحقین کی شکایت
آواران سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار دلجان بلوچ کی بازیابی کے لیے جاری احتجاجی دھرنا آج ساتویں روز میں داخل ہوگیا، یہ دھرنا 18 نومبر کو شروع ہوا تھا اور مسلسل جاری ہے۔
احتجاجی مظاہرین اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کے متعدد دور ناکام ہو چکے ہیں، اور مظاہرین نے دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ دھرنے کے باعث آواران میں مکمل کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے، اور انہیں پانی اور خوراک تک رسائی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ انتظامیہ بار بار نیٹ ورک بند کر کے احتجاج کو ناکام بنانے کی کوشش کررہی ہے۔
گذشتہ رات فورسز نے دھرنے کو مکمل طور پر گھیر لیا اور مظاہرین کو دھمکی دی کہ اگر دھرنا ختم نہ کیا گیا تو لاٹھی چارج کیا جائے گا۔ مظاہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے شناختی کارڈز اور موبائل فون چھیننے کی کوشش کی گئی، جبکہ شرکاء کو کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کیا جارہا۔
واضح رہے کہ آواران کے داخلی اور خارجی راستے گزشتہ چھ دنوں سے مختلف مقامات پر بند ہیں۔ دھرنے کے شرکاء کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج دلجان کی بازیابی تک جاری رہے گا اور راستے بند رہیں گے۔
احتجاج میں خواتین، بچے، اور بزرگ بھی شامل ہیں۔ مظاہرین نے واضح کیا ہے کہ چاہے آنسو گیس استعمال کی جائے، لاٹھی چارج ہو یا گولہ باری کی جائے، یہ احتجاج دلجان بلوچ کی بازیابی تک ختم نہیں ہوگا۔
مظاہرین نے وکلا، طلبہ تنظیموں، اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ دلجان بلوچ کے حق میں آواز بلند کریں اور مظاہرین کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا واحد مطالبہ ایک بے گناہ کی بازیابی ہے۔