بلوچستان: سی ٹی ڈی کا جعلی مقابلہ، جبری لاپتہ نوجوان کو قتل کر دیا گیا

150

بلوچستان میں ایک اور جعلی مقابلہ، فورسز کی زیر حراست نوجوان کی تشدد زدہ لاش برآمد

رواں سال جبری گمشدگی اور بعد کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے گرفتار ظاہر کئے جانے والے نوجوان کی تشدد زدہ لاش برآمد کرلی گئی ہے جس کی شناخت گوادر کے رہائشی شبیر احمد ولد عبدالغنی کے نام سے ہوگئی ہے۔

22 نومبر 2024 کو بشیر احمد ولد عبدالغنی کی لاش بلوچستان کے علاقے آواران میں ملی۔ بشیر احمد کو مئی 2024 میں گوادر سے پاکستانی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا، جہاں بعد ازاں سی ٹی ڈی اور اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران انکی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے ان پر بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے تعلق کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے 22 نومبر کو آواران، کیچ اور ڈیرہ بگٹی کے مختلف علاقوں میں آپریشنز اور جھڑپوں کے دوران چار افراد کے مارے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔

خیال رہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں کہ بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کیا گیا ہو۔ اس سے قبل بھی سی ٹی ڈی اور دیگر فورسز اداروں کے ہاتھوں اس طرح کے واقعات سامنے آ چکے ہیں، جن پر بلوچ عوام اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بار بار احتجاج کیا ہے۔

اس سے قبل رواں مہینے نومبر کے شروعات میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ موسیٰ خیل کے مقام پر ایک مقابلے میں چار افراد مارے گئے ہیں تاہم بعد ازاں تمام افراد کی شناخت پہلے سے لاپتہ افراد کے طور پر ہو گئی تھی۔

جبکہ اس سے قبل متعدد ایسے واقعات پیش آئے ہیں جہاں فوجی آپریشن اور جھڑپوں میں زیر حراست افراد کو قتل کرنے کے بعد مقابلے کا نام دیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فورسز کی جانب سے ایسے اقدامات کی نشاندہی کرتے ہوئے انکی شدید مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے حکام فورسز کی جانب سے پہلے سے زیر حراست افراد کا قتل عام روک کر جامعہ تحقیقات کرے اور ملوث افراد کو احتساب کے کٹہرے میں لائے۔