طابعلم خدا داد سراج کی عدم بازیابی، 31 مارچ کو گرینڈ ریلی کا اعلان

196

ہر لاپتہ فرد کا سوال ریاست کے وجود پہ سوال ہے ریاست ان سوالیہ نشانوں کے نیچے اپنی وجود کھو چکا ہے ۔ لواحقین خدا داد سراج

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما شاہ جی صبغت اللہ نے لاپتہ طالب علم خدا داد سراج کی والدہ، بہنوں اور دیگر فیملی ممبران کے ہمراہ تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خداداد سراج کی جبری گمشدگی اور عدم بازیابی کے خلاف 31 مارچ کو تربت میں ریلی کا اعلان کیا اور عوام سمیت لاپتہ افراد کے خاندانوں سے ریلی میں شریک ہونے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ خداداد سراج ولد سراج کرکی تجابان کیچ کا رہائشی ہے، پچھلے 3 سالوں سے وہ سرگودھا میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے، ہم بطور بلوچ اس درد سے آشنا تھے کہ خاندان کے کسی رکن کا لاپتہ ہونا کس طرح تکلیف دہ ہے البتہ ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہم بھی اسی غم سے دوچار ہونگے۔ 8 مارچ 2024 تایخ کو شب 8 بج کر 35 منٹ بہ مقام ظفراللہ چوک سرگودھا پنجاب سے خداداد سراج کو سادہ وردی میں ملبوس افراد جبری طور پہ اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں اور اب ہم بھی ان ہزاروں افراد کا حصہ بن چکے جو سالوں سے اپنوں کے لیے در بدر ہے۔

اس بات پہ ہمیں کوئی قائل نہیں کر پاتا کہ کسی جبری گمشدہ کا خیال مرے ہوئے سے زیادہ کرب ناک ہے، مگر آج یہ چیز ہم عملی طور پہ دیکھ چکے ہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ شائد اس درد سے بڑھ کر کسی کی زندگی میں کوئی درد ہو، کیونکہ یہ نا صرف ایک درد ہے بلکہ اس کے ساتھ ہولناک انتظار کا ایک قصہ شروع ہوجاتا ہے جہاں لمحے لمحے آپ کو ایسے خیالات آتے ہیں جو آپ کو ہزاروں دفعہ مرنے کا احساس دلاتی ہے۔ آج خداد داد کی جبری گمشدگی سے ہمارا خاندان جس قرب سے گزر رہا ہے اس درد کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ خداداد سراج کی بازیابی کے لیے ہم نے 14مارچ کو احتجاجاً سی پیک شاہراہ بند کردی تو ہمیں انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی کہ انہیں جلد رہا کیا جائے گا، مگر شائد ان افراد کے لیے یہ ایسا کام ہے جسے تہہ خانوں کی نظر کرنا کوئی مسئلہ نہیں جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ایک ایک لمحہ زندگی کتنی تلخ ناک ہے۔

انہوں نے کہاکہ دوسری مرتبہ 20مارچ کو ماہ رمضان میں تین روز تک ہم شاہ راہ بند کر کے بیٹھے رہے مگر پہلے کی طرح اس بار بھی ظالموں کو نا ہی ترس آیا اور نا ہی اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدگی دکھائی گئی، مسافروں کے پریشان حالی دیکھ کر ہم ایک مرتبہ پھر انتظار کرنے گھروں کو لوٹ گئے مگر کوئی حال نا ملنے پر آج ہم پھر ریاست کو ریاست کا کردار ادا کرنے کی یادہانی کر نے پہنچ چکے ہیں۔ اس بات کو ہم ایک بار نہیں ہزار بار دہراتے ہیں کہ خدادداد ہمارے کنبے کا رکن ہے اور اس رکن کے لیے جس کرب سے اس وقت گزر رہے اسی شدت سے اس کرب سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرینگے، جس حد تک ممکن ہوگا ہم احتجاج کریں گے چاہے وہ احتجاج تجابان میں روڈ بند کرنے سے ہو یا اسلام آباد تک لانگ مارچ تک، ہم اپنے بچے کی باحفاظت بازیابی کے ہر حد تک جدوجہد کرینگے۔

ہم جیسا خاندان جس کا نا سیاسات سے کوئی تعلق ہے اور نا ہی قانونی علم کا اندازہ مگر ہم سڑکوں پر آکر اس ریاست کہ یہ کہہ رہے کہ اپنے آئین پہ کاربند رہے، اپنے قوانین کا احترام کریں، ہمارے پیارے اگر کسی مشکوک سرگرمی میں مبتلا ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے قانونی کاروائی کا حق ادا کریں جب ہم جیسے لوگ آکر یہ بات کرتے ہیں تو یقین کیجیے ریاست کے چلانے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے، ریاست کے والی کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو سیاسی بنایا جارہا ہے، ہم کہتے ہے کہ ہر لاپتہ فرد کا سوال ریاست کے وجود پہ سوال ہے اور ریاست ان سوالیہ نشانوں کے نیچے اپنی وجود کھو چکا ہے یہ کیسی ریاست ہے جسے ہم اس کے اپنے قوانین ماننے کا درخواست کریں؟ یہ کیسی ریاست ہے جو خود ہر خاندان کو ایک ایسی راہ پہ لے آتی ہے جو اس کے خلاف انگلی اٹھائے۔ جب لوگ ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ ہوں تو مسئلہ خود سیاسی مسئلہ بن جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ آج اس سنگین مسئلے پہ ریاستی سربراہان غیر سنجیدہ بیان بازیاں کرکے ہم جیسوں کے زخموں پہ نمک پاشی کرتے ہیں تب ہمارے دلوں میں ریاست کا احترام ریت کے محل جیسے بکھر جاتا ہے۔ یہ مسئلہ انتہائی سنگیں مسئلہ ہے، اس مسئلے پہ لانگ مارچ جیسا قدم کم ہے، ہم خود اس نہج پہ پہنچ چکے کہ خود سوزی جیسے احتجاج کے خیالات جنم لے رہے ہے۔ ہم اس ریاست پہ واضح کرنا چاہتے ہے کہ ہمیں اگر ایک شہری کے حقوق حاصل ہیں تو ہمارے پیاروں کو گمنام نا کیا جائے، اس مسئلے سے نا ہی ریاست کے بقا کو ممکن بنایا جاسکتا ہے نا ہی اس کے معیار کو بلند کیا جاسکتا ہے بلکہ یہ عوام اور ریاست کے بیچ نفرت کی دیوار کو مظبوط کر رہی ہے۔ ہم اپنے پیارے کی بازیابی کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہیں رکھتے ، اور خداداد کی بازیابی کے لیے اس تحریک کو تب تک وسعت دیتے جائینگے جب تک وہ سلامتی سے بازیاب نہیں ہوتے۔ لاپتہ افراد سے منسلک مسئلے پہ کوئی غیر سنجیدگی قابل قبول نہیں۔

مزید کہاکہ ہم اپنے احتجاج کو وسیع کرتے ہوئے 31 مارچ کو ایک گرینڈ ریلی کا اعلان کرتے ہیں جس میں ہم مکران میں موجود جبری گمشدگی کے شکار تمام افراد سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس ریلی میں بھر پور طریقے سے شرکت کریں۔ ہم سب خود اپنی آواز ہیں ہمیں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے اس جدوجہد کو آگے لے جانا لازمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی متاثرہ خاندان کے اس احتجاج کی حمائیت کا اعلان کرتی ہے اور آپ سب سے امید کرتی ہے کہ لاپتہ افراد کے لیے اس قانونی جدوجہد کو آگے لے جانے میں ہم سب بطور قوم ہم آواز رہینگے۔ ریاستی مشینری انتہائی غیر سنجیدگی و غیر انسانی عمل اپنائے ہوئے ہے، قانون و عدالتوں کے موجودگی میں ہزاروں لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنانا، ہزاروں خاندانوں کو ایک نا ختم ہونے والےانتظار کرنے جیسے کرب میں مبتلا کرنا ، کبھی مسخ شدہ لاش تو کبھی جعلی مقابلوں کا ڈھونگ رچانا اور اب رہی صحیع کمی یہ تھی کہ ہر جنگجو کو لاپتہ افراد کا حصہ ظاہر کرکے اس جدوجہد کو غیر قانونی قرار دینا یہ بچگانہ حرکتیں ریاست کے معیار کو دن بہ دن گرانے کے سوا کچھ نہیں، ریاست اپنی طفلانہ سازشوں سے اپنے ہی عوام کے اندر اپنا تاثر کھو چکا ہے، فوجی آمریت کے سوا ریاست کو بیان کرنے کے لیے کوئی لفظ نہیں رہا۔

ہم واضح کرتے ہیں کہ ہم سے زیادہ پر امن کوئی نہیں، ریاست کو قوانین کا احترام کرنا لازم و ملزوم ہے، کسی بھی فرد کو جبری گمشدہ کرنا کسی بھی قانون کے لوازمات میں شامل نہیں۔ یہاں تحریکیں جنم لینگی، یہاں عوامی غصہ ابھرے گا، یا ریاست سے نفرت سڑکوں پہ گھومے گی، ریاست ہوش کرے ریاست کے والی ریاست پہ رحم کریں اور غلیظ پرپگنڈہ پہ اپنے وسائل کو خرچ کرنے کے بجائے اس مسئلے کو سنجیدگی کے بنیاد پہ حل کرنے کی کوشش کریں۔ ہم آج شب خداداد کی بازیابی کے لیے ہونے والے کیمپین کو سپورٹ کرتے ہیں، اور 27 مارچ کو لاپتہ افراد کے لیے ہونے کیمپین کو بھی سپورٹ کرتے ہیں، اور آپ سب سے درخواست کرتے ہیں بطور زی شعور انسان اس غیر قانونی عمل کے خلاف یکجا و یکمشت ہوں، سیاسی و عوامی جدوجہد ہی اس مسئلے کا حل ہے۔