سی ٹی ڈی نے کریم جان کو جبری لاپتہ کرنے کے بعد گرفتاری ظاہر کی تھی – دستاویزات سامنے آگئے

1222

گوادر میں بلوچ لبریشن آرمی مجید برگیڈ کے حملے کے بعد ایک بار پھر بلوچ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے سماجی رابطوں کی سائٹ سمیت پاکستانی میڈیا میں منفی کمپئین دیکھنے میں آئی ہے۔

گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر بلوچ ‘فدائین’ میں سے ایک کریم جان کے ماضی میں جبری گمشدگی کو میڈیا میں جھوٹا قرار دینے کا تاثر دیا گیا تاہم بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے اس کمپئین کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہے۔

تربت کے رہائشی کریم جان کی جبری گمشدگی و بعدازاں گرفتاری ظاہر کرنے اور عدالت میں کیس چلنے کے حوالے سے بلوچ نیشنل موؤنٹ کے انسانی حقوق کے ادارے پانک نے دستاویزات فراہم کردیئے۔

پانک کے نمائندے جمال بلوچ نے اس حوالے سے ویڈیو پیغام میں ایف آئی آر، عدالتی فیصلے و تفصیلات فراہم کی۔

پانک کی جانب سے بتایا گیا کہ ہم ریاستی سرپرستی میں ہونے والے پروپیگنڈے کی شدید مذمت کرتے ہیں جس کا مقصد بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے معاملے کو مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لیے کریم جان بلوچ کے کیس میں جوڑ توڑ کیا جا رہا ہے۔

پانک نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ کریم جان کو پاکستانی خفیہ اداروں نے 23 مئی 2022 کو اغواء کیا تھا، کریم جان کے اہل خانہ نے ان کی گمشدگی پر بہادری سے احتجاج کیا۔ دو ماہ کی گمشدگی کے بعد، 31 جولائی 2022 کو کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی طرف سے اس پر دھماکہ خیز مواد رکھنے کا الزام لگایا گیا۔ تاہم، ان کی جبری گمشدگی کے ناقابل تردید شواہد کی وجہ سے عدالت نے انہیں تمام جھوٹے الزامات سے بجا طور پر بری کر دیا۔ کریم جان کو 17 اگست 2022 کو رہا کیا گیا تھا۔ ہم صحافیوں سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ ایسے معاملات کی ذمہ داری کے ساتھ رپورٹنگ کریں تاکہ اس معاملے کو جوڑ توڑ سے بچایا جاسکے۔

صحافی ‘کیا بلوچ’ نے اس حوالے سے لکھا کہ سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے کہ گوادر میں ملوث کریم جان لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھا۔ یہ بات درست ہے کہ انہیں لاپتہ کر دیا گیا تھا لیکن جب کریم کے اہل خانہ نے احتجاج کیا تو سی ٹی ڈی انہیں منظر عام پر لے آیا اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔

‏انہوں نے بتایا کہ کم عمر ہونے کی وجہ سے عدالت نے اسے ضمانت دے دی۔ کریم کو 23 مئی 2022 کو گھر سے لاپتہ کیا گیا تھا اور 2 ماہ سے زائد لاپتہ کئے جانے کے بعد 31 جولائی 2022 کو سی ٹی ڈی نے انہیں عدالت میں پیش کیا۔ بعد میں جب ضمانت مل گئی تو کریم دوبارہ غائب ہوگیا اور مسلح تنظیم میں شامل ہو گیا۔

اس حوالے سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ  ایسے دو واقعات سامنے آئے ہیں جہان ماضی میں جبری گمشدہ کیئے گئے افراد مسلح تنظیم کی رکن بن گئے ان دو واقعات کو لے کر ریاستی مشینری پروپیگنڈے کی کوشش کررہی ہے کہ یہ مسنگ نہیں تھے، اس عمل کی وضاحت ضروری ہے کہ ان دو واقعات میں دو بلوچوں کو اغواء کرکے غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب وہ اغوا ہوئے تو انکے لواحقین نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا جب وہ بازیاب ہوئے تو انکی رہائی کی خبریں میڈیا میں تاریخ کے ساتھ موجود ہیں۔

سمی دین بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے زمینی حقائق سے نابلد میڈیا آئی ایس پی آر کے موقف کو لے کر یک طرفہ بیانیہ مرتب کرنے میں مصروف ہونے کے بجائے ان باتوں پر توجہ دے کہ آخر کونسی وجوہات کی بنا پر بلوچستان میں انسرجنسی بڑھتی جارہی ہے کیوں لوگوں کی نفرتوں میں اضافہ ہورہا ہے کیوں لوگ بندوق اٹھا رہے ہیں اور کس کے لئے مزاکرات کے دروازے کھلے ہیں، کس سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔