فورسز نے رات کو گھر میں گھس کر والدین کو ہراساں کیا۔ حوران بلوچ

284

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء حوران بلوچ نے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پرامن اور آئینی جدوجہد کے باوجود مجھے اور میرے خاندان کو تنگ کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور ماورائے آئین اقدام ہے۔

انہوں نے کہاکہ کچھ دنوں سے ریاستی ادارے ہمیں مسلسل تنگ کر رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہم سریاب کلی شاہ نواز کوئٹہ سے سٹلائٹ ٹاون شفٹ ہوئے اس دن جب سامان لے جار ہے تھے اس وقت سے شفٹ ہونے کے بعد مسلسل خفیہ اداروں کے اہلکار ہمیں فالو کر رہے تھے اور بار بار مختلف لوگ گھر کے گیٹ پر آکر ہراساں کر رہے تھے۔ میرے والد اور ہمارے خاندان کے کچھ لوگ ابھی تک ہمارے پہلے والے گھر میں رہ رہے ہیں۔ رات کو تقریباً 3 بجے کلی شاہ نواز کے گھر پر ریاستی ادارے بشمول سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے گھر کو گھیرے میں لیا اور چھتوں پر چڑھ کر مرکزی گیٹ کھول کر گھر میں داخل ہوئے میرے والد کو جگا کر گھر کی تلاشی لی، گھر کے اندر اور چھتوں پر سول کپڑوں اور سی ڈی ٹی کے وردیوں میں ملبوس نقاب پوش اسلحہ تھامے کھڑے تھے اور گیٹ پر پینٹ شرٹ پہنے خفیہ ادارے کے آفیسر نے میرے والد سے تلخ کلامی بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ والد سے کہا کہ تم اپنی بیٹی کو اب لگام دو اور مجھ پر مختلف قسم کے الزامات لگائے کہ میں لوگوں کو برین واش کرتی ہوں اور والد سے کہا کہ آپ اپنی بیٹی کو سمجھاو کہ وہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ اور احتجاجوں میں نہ جایا کرے ورنہ ہم آپ کے خاندان کے ساتھ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اس طرح کے اقدامات سے میں خاموش نہیں رہوں گی بلکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اور جبری گمشدگی کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے پر امن جد و جہد جاری رکھوں گی۔ اگر اس دوران مجھے اور میرے خاندان کو کچھ ہوا تو اس کا ذمہ دار ریاست ہوگا۔

انہوں نے مزید کہاکہ یہ بات واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ میرا کسی سیاسی و مزاحمتی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں گذشتہ 13 سالوں سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کے ساتھ منسلک رہی ہوں اور میں صرف اور صرف ایک انسانی حقوق کا کارکن اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا ریسرچ کو آرڈینٹر ہوں اور میں تنظیم کی آئین کو فالو کرتی ہوں اور ملک کی قوانین کے تحت لاپتہ افراد کی بازیابی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف جدوجہد کررہی ہوں۔