کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

88

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5381 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر پنجگور سے سیاسی کارکنان علیم شنبے بلوچ، مجاہد بلوچ، اختر بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجحتی کی ۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ قابض منصوبہ بندی کے تحت بلوچ آبادیوں آپریشن کا آغاز کر چُکا ہے، ریاست پاکستان نے بلوچستان میں اپنی حکمت عملی بدلتے ہوئے بلوچ نسل کُشی کو اور تیز کر دیا ہے ۔ اب قابض ریاست نا صرف بلوچوں کو کھلے عام قتل کرنا شروع کر دیا ہے اپنے ان مکروہ عزائم کو جواز بخشنے کے لیے ایک منصوبہ بندی کے تحت پروپیگنڈا بھی شروع کردیا ہے ۔بلوچ آبادیوں پر بمباری کرنے کے لیئے جواز پیدا کرنا سب اسی پالیسی کے شا خسانے ہیں کہ اب بلوچ نسل کُشی کو تیز تر کر کے جہدوجہد کو کمزور کرنے کی سعی کرنا ہے اپنے ان نسل کش پالیسیوں کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوتے گزشتہ دن تمپ سے دو نوجوان کو جبری لاپتہ کیا جن میں روف ولد مراد محمد اور پیر بخش بلوچ کو پنجگور کے علاقوں سے اس کے علاوہ مستونگ قلات کوہلو ڈیرہ بگٹی بلوچستان ایسا کوئی جگہ یہ علاقہ نہ ہو کہ بلوچ سامراجی فورسز نے خضدار رہائشی بلوچ نوجوان کو کوئٹہ اغوا کر کے نا معلوم مقام پر منتقل کر دیئے ۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی فورسز بلوچ قومی جد جہد کی پذیراآئی سے گھرا کر بلوچستان فرقہ ورایت مذہبی انتہا پسندی کو سامنے لارہے ہے ۔تاکہ بلوچ عوام قومی جد جہد کو کاؤنٹر کرنے کے لئے مذہبی اننتیا پسندی کے خلاف کارروائیوں کے بہانے بلوچ قومی تحریک کو کمزور کیا جا سکے ۔لیکن دنیا اس بات سے بخوبی با علم ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کی تشکیل کو سامراجی پاکستان اور اس کے ادارے کی کارستانیاں رہی ہے ۔اب بلوچ آبادیوں پر اپریشن کی شدت میں اضافہ کیا جائیگا ۔بلوچ خون بے دریغ بہایا جاے گا لیکن باراء نشاندہی کے باوجود انسانی حقوق کے علم بردار اداروں اور عالمی ذرائع ابلاغ کی اس سنجیدہ انسانی المیہ کو یکسر نظر انداز کرنا مظلوم محکوم کے بابت ہمارے اجتماعی بے حسی کی نشاندہی کر رہی ہے جن کی وجہ سے پاکستان کے کوکھ سے جنم لینے والی یہ دہشتگردی نا صرف بلوچ عوام کے لیے صعوبتیں لا رہی ہے بلکہ اب یہ پوری دنیا میں پہہل کر تمام مذہب اقوام کے لیے وبال جان بن چکی ہے۔