واشک، کوئٹہ: سی ٹی ڈی کا مبینہ مقابلہ، 8 افراد ہلاک

719

کاونٹر ٹیریرزم ڈیپارٹمنٹ نے واشک اور کوئٹہ میں دو مختلف کارروائیوں میں مقابلے میں 8 افراد کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے۔ 

کاونٹر ٹیریرزم ڈیپارٹمنٹ نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان میں دو انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنوں میں 8 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔

ترجمان سی ٹی ڈی بلوچستان کے مطابق پہلا آپریشن ضلع واشک کے علاقے بسیمہ میں شدید فائرنگ کے تبادلہ کے بعد 5 افراد کو ہلاک کردیا جبکہ مذکورہ افراد کے تین فرار ہونے والے ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔

ترجمان نے دعویٰ کیا کہ کوئٹہ میں ہونے والے دوسرے آپریشن میں بھی شدید فائرنگ کے بعد کالعدم تنظیم داعش کے 3 ارکان کو ہلاک کر دیا جبکہ دہشت گردوں کے ٹھکانے سے ایک ماہ قبل کوئٹہ سے اغواء ہونے والا شخص ابوبکر بھی بحفاظت بازیاب کرا لیا گیا۔

ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ہلاک افراد کے ٹھکانوں سے بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود برآمد کرکے تحقیقات شروع کردی۔

واشک میں مارے جانے والے افراد میں سے چار کی شناخت محمد یاسین، فہد علی، جمال دین اور عبید اللہ کے طور پر ہوئی ہے جبکہ ایک کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔

ذرائع کے مطابق مذکورہ افراد مبینہ طور پر پہلے زیر حراست افراد ہیں جن کو سی ٹی ڈی نے جعلی مقابلے میں قتل کردیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے تصدیق ہونا باقی ہے۔

سی ٹی ڈی و جعلی مقابلے:

بلوچستان میں سی ٹی ڈی کی کاروائیوں کو مشکوک قرار دیا جاتا رہا ہے جبکہ کئی کاروائیاں میڈیا و متاثرہ لواحقین کے توسط جعلی قرار پائے ہیں تاہم حکومتی وزراء اور حکام ان کاروائیوں کا دفاع کرتے رہے ہیں۔

حالیہ کچھ وقتوں سے بلوچ قوم پرست حلقے، انسانی حقوق کی تنظیمیں سی ٹی ڈی پہ الزام عائد کررہے ہیں کہ ماضی میں جو کام بلوچستان میں پاکستانی خفیہ ایجنسیاں و فوج کرتے تھے وہی کام آج سی ٹی ڈی کررہا ہے۔ اس کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء و رکن اسمبلی سردار اختر جان مینگل کرچکے ہیں۔

دو روز قبل خضدار، زہری کے رہائشی غلام فاروق کی لاش کوئٹہ کے علاق کلی قمبرانی میں روڈ کنارے ملی تھی جنہیں  گذشتہ سال 27 اکتوبر کو مستونگ سے پاکستانی فورسز و سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے مرکزی شاہراہ سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا۔

گذشتہ سال جولائی میں پاکستانی فورسز نے زیارت کے قریب ایک مقابلے میں بلوچ لبریشن آرمی سے تعلق رکھنے والے 9 افراد کو مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم بعد میں ان کی شناخت پہلے سے زیر حراست لاپتہ افراد کے ناموں سے ہوئی تھی۔

زیارت واقعے کے خلاف بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے پچاس دنوں تک گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا تھا بعدازاں وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ کی یقین دہانی پر کوئٹہ کے ریڈ زون میں احتجاج موخر کیا گیا جہاں مظاہرین کو کمیٹی نے یقین دہانی کرائی کہ جبری گمشدگیوں کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھائے جائینگے اور زیر حراست لاپتہ افراد جعلی مقابلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔

حالیہ واقعات کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین کے تشویش میں اضافہ ہوا ہے جبکہ انسانی حقوق کے تنظیموں سمیت سیاسی جماعتیں حکومت پر تنقید کررہے ہیں۔