افغانستان میں چین کی بڑھتی ہوئی سفارتی سرگرمیاں ، معاملہ کیا ہے؟

912

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بیرونی ملکوں کے سفیروں کی تعداد بہت کم ہے۔ تاہم افغانستان میں چین کے سفیر وانگ یو سب سے زیادہ مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

وانگ نے اس ہفتے تین طالبان وزراء سے ملاقات کی جن میں سے دو کو خاص طور پر مغربی سفارت کاروں نے نظر انداز کیا ہے ۔ امریکہ کی طرف سے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی پر دہشت گردی کے حوالے سے 10 ملین ڈالر کا انعام ہے جب کہ اعلیٰ تعلیم کے وزیر ندا محمد ندیم نے افغان لڑکیوں کے لیے یونیورسٹیاں بند کر رکھی ہیں۔

ادھر بیجنگ میں طالبان کے سفیر سید محی الدین سادات کابل میں اپنے ہم منصب کی طرح چینی حکومت اور کاروباری شعبے کے حکام کے ساتھ انتہائی مصروف وقت گزارتے ہیں ۔ چین ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں طالبان کے چارج ڈی افیئرز موجود ہیں ۔

بیجنگ نے اگر چہ رسمی طور پر طالبان کو تسلیم تو نہیں کیا تاہم عملی طور پر طالبان حکومت کے ساتھ نہ صرف افغانستان کی قانونی حکومت کی حیثیت سے بلکہ تجارت، سرمایہ کاری اور سیکیورٹی شراکت دار کے طور پر تعلق جاری رکھا ہے ۔

ایک سابق افغان سفیر جاوید احمد کا کہنا ہے کہ چین ایسے سیاسی نظاموں کو ترجیح دیتا ہے جو طویل مدتی دوطرفہ تعلقات کو یقینی بنانے کی ضمانت دیں، چاہے وہاں طالبان جیسے اسلام پسند گروہوں کی قیادت ہی کیوں نہ ہو۔

جاوید احمد نے مزید کہا کہ ’’چینی رہنما اس خیال کے تحت کام کرتے ہیں کہ مغرب کے ساتھ مسابقت میں ان کی کامیابی کا دارومدار افغانستان جیسی چھوٹی اور درمیانی ریاستوں پر اثرورسوخ قائم کرنے پر ہے۔‘‘

چین اور افغانستان کے درمیان ایک ناہموار اور ہمیشہ بند رہنے والی 92 کلومیٹر طویل سرحدہے۔ لیکن چین نے روایتی طور پر افغانستان کے ساتھ فاصلہ برقرار رکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی ہے جسے وہ ’ تھری ریسپکٹس ‘ اور ’تھری نیور‘ کی پالیسی کے طور پر بیان کرتا ہے ۔

چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے 12 اپریل کو جاری کردہ ایک پالیسی بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’چین افغانستان کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت ،افغان عوام کے آزادانہ انتخاب اور افغانستان کے مذہبی عقائد اور قومی رسم و رواج کا احترام کرتا ہے۔‘‘

شاید یہ احترام ہی ہے کہ چین نے طالبان کے خلاف کسی بھی نوعیت کی کوئی تعزیری کارروائی نہیں کی، حالانکہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دیگر آزاد گروپوں کے مطابق طالبان نے ملک گیر سطح پر صنفی امتیازی نظام نافذ کر رکھا ہے جو خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کو رد کرتا ہے ۔

چین کے پالیسی بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ چین کبھی بھی افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتااور نہ ہی کسی طرح کے نام و رسوخ سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔‘‘

دنیا بھر میں بیجنگ پر الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ایشیا اور افریقہ کے کم آمدنی والے ممالک کے لیے شدید نوعیت کی استحصالی پالیسی قائم رکھے ہوئے ہے جہاں چینی کمپنیوں نے کان کنی اور بڑے تعمیراتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔

طالبان حکام اس سال کے شروع میں ایک چینی فرم کے ساتھ تیل نکالنے کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد اب یہ کہتے ہیں کہ چین افغانستان میں لیتھیم کی کان کنی کے لیے سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتا ہے۔

افغانستان میں مبینہ طور پر ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ مالیت کے قیمتی معدنی ذخائر موجود ہیں۔ ان میں ری چارج ایبل بیٹریوں میں استعمال ہونے والے عنصر لیتھیم کے انتہائی مطلوب ذخائر بھی شامل ہیں۔

امریکہ کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے بدھ کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ چین جس انداز میں دو طرفہ تعلقات کو فروغ دیتا ہے اس کا مقصد مفادات کا حصول ہے ۔ ان میں اہم معدنیات کے حصول کا امکان بھی شامل ہے ۔ کربی نے یہ بات چین کے ساتھ طالبان کے حالیہ تعلقات کے بارے میں وائس آف امریکہ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی۔ افغانستان کے قدرتی وسائل میں چین کی دلچسپی نئی نہیں کیونکہ اس نے 2007 میں سابق افغان حکومت کے ساتھ تانبے کی کان کنی کے لیےکئی ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا۔ تاہم اس منصوبے کا کبھی آغاز نہیں ہوا ۔

طالبان کے ساتھ تیل کا حالیہ معاہدہ ’’ وہی ہے جو چائنا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن نے 2011 میں طے کیا تھا۔حکومت نے چین سے نیا معاہدہ کرنے کو کہا ہے ورنہ پہلے کیے گئے معاہدے کو جاری رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘ یہ بات واشنگٹن میں قائم اسٹیمسن سینٹر کی ایک سینئر فیلو یون سن نے وی او اے کو بتائی ہے ۔

یون سن نے کہا کہ چین کو اب بھی افغانستان میں عدم استحکام پر تشویش ہے اور مستقبل قریب میں وہاں کان کنی میں سرمایہ کاری کے امکانات زیادہ روشن نہیں ہیں۔

چینی کمیونسٹ رہنماؤں نے پڑوسی ملک افغانستان میں ایغور عسکریت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہوں کی اجازت دینے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ چینی حکام پر ملک کی اقلیتی مسلم ایغورآبادی پر نظریہ ساز کیمپوں میں تشدد کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے ۔

سابق افغان سفیراحمد نے کہا کہ ’’چین کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ ایغور مسلمان ممکنہ طور پر ہتھیار خریدنے میں کامیاب نہ ہو جائیں اور خطے کے دیگر عسکریت پسندوں کے ساتھ شراکت داری قائم نہ کر لیں”۔

طالبان کا کہنا ہے کہ کسی بھی دہشت گرد گروپ کو افغان سرزمین کو دیگر ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ان میں ایغور گروپ اور ایسٹرن ترکستان اسلامک موومنٹ بھی شامل ہیں۔

احمد نے کہا کہ ’’ طالبان کے اندر حقانی دھڑا ایغور امور کا انتظام دیکھتا ہے اور انہوں نے نگرانی کے نظام اور نقد رقم کے عوض ایغوروں کو کچھ رعایتیں دی ہیں۔‘‘

طالبان نے امریکہ کے ساتھ 2020 کے معاہدے کے تحت وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں القاعدہ اور اس سے وابستہ افراد کو محفوظ پناہ گاہوں کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن امریکی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان نے القاعدہ کے سابق لیڈر الظواہری کی کابل میں میزبانی کرتے ہوئے اس وعدے کی خلاف ورزی کی ہے کہ ’’طالبان کامذہبی عقیدہ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘

مغربی ممالک کی طرف سے مذمت اورپابندیوں کے بعد طالبان کی حکومت اس بات کے لیے بے چین ہے کہ علاقائی ممالک سے کان کنی کے سودوں اور سلامتی کی یقین دہانی کے بدلے انہیں بھی قبولیت حاصل ہو جائے ۔