گلزار امام کی گرفتاری اور ریاستی پروپیگنڈہ ۔ مزار بلوچ

1499

گلزار امام کی گرفتاری اور ریاستی پروپیگنڈہ

تحرير: مزار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

قبضہ گیریت اور مظالم کے خلاف دنیا بھر میں موجودہ تحریکوں میں بلوچ تحریک آزادی اپنی مثال آپ ہے۔ دوسرے تحریکوں کے مقابلے اس تحریک میں بلوچ فرزندان کے ساتھ ساتھ ان کے رہنماؤں نے جان کی قربانیاں دے کر اسے نظریاتی ایندھن اور دوام بخشا۔ پاکستان میں میڈیا پر مکمل پابندی ہےاور صرف ریاستی بیانئیے کو آئی لائٹ کیا جاتا ہے رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان سمیت دنیا بلوچستان میں ہونے والے ریاستی مظالم جنگی حقائق سے پوری طرح باخبر نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچ عوام یا محدود ذہنیت کے لوگ جو خود کو بظاہر بلوچ تحریک کے ہمدرد بھی کہتے ہیں اکثر بیشتر اس ریاستی پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر غلط اندازے لگا لیتے ہیں اور ریاستی پروپیگنڈے کا حصہ بن کر اس کی ترویج کرکے بلوچ قوم میں مایوسی پھیلاتے ہیں۔

علاقائی سطح پر اٹھنے والے ہر سچائی اور آواز کو ریاست طاقت کے زریعے دبا کر اسے ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حالیہ بلوچ تحریک کے بارے میں ریاست بھی غلط فہمی کا شکار ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیڈروں کو قتل کرنے یا بلوچ سٹوڈنٹس کو کالجوں سے لاپتہ کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے سے خوف ہراس پھیلے گا اور بلوچ آذادی کی تحریک ختم ہوجائے گا یہی قابض ریاست اور اس کے حواریوں کی سب سے بڑی بھول ہے۔

کیونکہ جب بھی ریاست نے کسی بلوچ رہنما کو گرفتار کرکے قتل کیا ہے یا اپنی پوری عسکری قوت استعمال کرکے اسے مارا ہے تو تحریک آذادی رکنے کی بجائے مزید مظبوط ہوتا چلا گیا ہےکیونکہ عام مظاہروں کے مقابلے انقلابی تحریک جانی قربانی دینے سے زیادہ پختہ ہوجاتا ہے
ہمارے سامنے لاتعداد واضح ترین مثالیں ہیں۔

حالیہ بلوچ تحریک کے شروع ہونے کے پانچ سال بعد قابض نے اپنی تمام فضائیہ اور عسکری قوت استعمال کرکے نواب اکبر خان بگٹی کو قتل کر دیااور ریاستی بیانئیے کے برعکس اس واقعے کے بعد بلوچ تحریک کئی گنا زیادہ شدت سے سامنے آیا۔ ایک سال بعد 2007 میں بلوچ تحریک کے روح رواں کہے جانے والے بالاچ مری کی شہادت سے تحریک نے مزید شدت اختیار کی۔ دو سال بعد ریاست نے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بلوچ رہنما چیئرمین غلام محمد بلوچ کو لاپتہ کردیا اور پھر ساتھیوں سمیت قتل کرکے ان کی لاشیں ویرانے میں پھینک دی جس کی وجہ سے پورے بلوچستان خاص مکران میں مزاحمتی جنگ توقع سے بڑھ کر پھیلنے لگا۔

2014 میں حالیہ بلوچ تحریک کے بانی کے طور پر دیکھے جانے والے نواب خیر بخش مری کی رحلت کے بعد ریاست اور ریاستی پروپیگنڈے سے متاثر بعض حلقوں نے بلوچ مزاحمت کو ختم ہونے کے طور پر پیش کرنے لگے لیکن بلوچ نوجوانوں نے اپنے فطری صلاحیتوں کی بدولت ڈٹ کر کھڑے رہے۔ گوکہ 2012 سے 2014 میں غالباً نظمی کمزوریوں کی وجہ سے مزاحمت کاروں نے اپنی جنگی حکمت عملیاں بدل دیئے جس سے عارضی طور پر مزاحمت میں کمی آئی۔

2015 کے بعد اسلم بلوچ کی قیادت میں اور دوسرے مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ مل کر بلوچ مزاحمت کاروں نے اپنے کمزوریوں پر از سر نو نظر ثانی اتحاد جدید تیکنیک اور اسلحہ حاصل کرنے کے بعد 2017 میں تحریک کو پہلے سے زیادہ پر اثر طور پر سامنے لانے میں کامیاب ہوگئے۔

2018 میں اسلم بلوچ کی شہادت کے بعد قابض ریاست میڈیا پروپیگنڈے کے زریعے حالات سے گھبرانے والے ناواقف اور سیاسی سمجھ بوجھ نہ رکھنے والے اور کچھ مخصوص لوگوں کے ذریعے بلوچ تحریک کو ختم کرنے کی ناکام مہم چلائی جو بلوچ مزاحمت کاروں کے ریاست کے خلاف زیادہ منظم اور بہترین جنگی حکمت عملی کا واضح ثبوت ہے۔

کیونکہ حالیہ مزاحمتی تحریک اسلم بلوچ کی شہادت کے بعد کمزور ہونے یا ایک بڑی فوج ایٹمی طاقت رکھنے والے ریاست سے مرعوب ہوکر دب جانے کی بجائے غیر متوقع طور پر گزشتہ واقعات میں سب سے زیادہ طاقت پکڑ کر سامنے آیا ہے اور حالیہ چار سال کے مظبوط جنگی حکمت عملیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی بلوچ لیڈر کے گرفتاری یا قتل سے مزاحمتی تحریک پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا کیونکہ حالیہ تحریک میں اکثریت انتہائی تعلیم یافتہ نوجوان مزاحمت کاروں پر مشتمل ہے جو کسی بھی چھوٹے بڑے نقصان کی صورت میں اس کمی کو پورا کرنے خود کو حالات کے ساتھ ڈھالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں
اسی لئیے گلزار امام کی گرفتاری سے عارضی طور پر ہونے والے نقصانات کے علاوہ بلوچ تحریک کو خاص مسائل درپیش نہیں ہونگے بلکہ اس سے بلوچ مزاحمت کو مذید تقویت ملے گا کیونکہ گزشتہ 70 سالوں کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا تعلیم یافتہ بلوچ نوجوان یہ اچھی طرح سے سمجھ چکا ہے کہ عالمی طاقتوں کے لئیے کرائے پر موجود پاکستان جیسا دوغلا پالیسی رکھنے والا ملک کسی عوامی مظاہرے جلسے جلوس عالمی انسانی حقوق اور جنگی قوانین کو خاطر میں نہیں لاتا اور ایسے دوغلے معیار ملک کے قبضہ گیریت مظالم کو حالات کے مطابق جدید طریقوں پر عمل پیرا ہو کر صرف اور صرف گوریلا مزاحمت سے ہی شکست دی جاسکتی ہےاگر دیکھا جائے تو پاکستانی ریاست بلوچستان پر قابض ہونے کے بعد شروع ہی سے دھوکہ دہی کے ذریعے بلوچ مزاحمت کو ختم کرنے کے لئے مکارانہ ہتھکنڈے استعمال کررہا جو وقتی مختصر دورانیے کے علاوہ اُس کے لیے کبھی دیرپا سود مند نہیں رہے۔

1948 میں بلوچستان پر قبضہ ہونے کے بعد پاکستان کے خلاف پہلے مزاحمت کاروں کی گرفتاری اس کے بعد
1958 میں پاکستانی فوج کو جھالاوان میں شکست دے کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے والے نواب نوروز خان کو معاہدے کے برخلاف دھوکے دے پہاڑوں سے اتارنے کے بعد اس کے ساتھیوں کو پھانسی اور عمر قید دی گئی۔

70 کی دہائی میں کوہستان مری اور ملحقہ علاقوں میں عام بلوچ آبادی کو بمبارمنٹ کے زریعے نشانہ بنا کر ان کی نسل کشی کی گئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دوران بلوچ قوم کو مختلف ادوار میں ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا اور اُن ادوار کے مطابق بے سرو سامانی منظم ہونے کے لئیے مزاحمت کاروں کو عارضی طور پر خاموش رہنا پڑالیکن بلوچ مزاحمت فطری ہونے کی وجہ سے کبھی مکمل ختم نہیں ہو سکا۔

آج دور یکسر بدل چکا ہےتعلیم اور جدید کمیونیکیشن سسٹم جنگی حالات کا باریک بینی سے مطالعہ آج کا بلوچ مزاحمت کار اپنے لئیے جنگی ضروریات اسلحہ وسائل خود پیدا کرنے کے قابل بن چکا ہے
جو کسی بھی ریاستی ریاستی جارحیت اور پروپیگنڈے کا گوریلا طرز اپناتے ہوئے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ بقولِ اسلم بلوچ کہ ریاست اگر جتنی شدت سے بلوچ کو دبانے کی کوشش کرے بلوچ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ ابھرے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں