چین و پاکستان اتحاد بلوچ کے انسانی حقوق پر براہ راست حملہ ہے – ڈاکٹر نسیم بلوچ

518

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہے کہ چین اور پاکستان اتحاد سے نہ صرف مغربی مفادات کو خطرہ ہے بلکہ یہ اتحاد بلوچ عوام کے بنیادی انسانی حقوق پر بھی براہ راست حملہ کرتا ہے۔

انھوں نے یہ بات اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے 52ویں باقاعدہ نشست کے موقع پر ایک ضمنی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس کانفرنس کا اہتمام اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ مشاورتی حیثیت میں کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم (این جی اوز) ضمیر کی آزادی کے لیے ، انجمنوں اور افراد کے مابین ارتباط کیپ (Coordination des Associations et des Particuliers pour la Liberté de Conscience ) نے کیا تھا۔

انھوں نے اپنے خطاب میں کہا جب سے پاکستان نے اس خطے پر قبضہ کیا ہے، بلوچستان کے لوگ معمول کی زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستان کے جابرانہ اقدامات نے ہماری معاش، ثقافت، روایات اور زبانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بلوچستان کی زیادہ تر آبادی پہاڑوں میں رہتی تھی اور اپنی روزی روٹی کے لیے گلہ بانی پر انحصار کرتی تھی۔ تاہم، فوجی کارروائیوں میں اضافے سے، ان کی روزی روٹی داؤ پر لگ گئی ہے، اور وہ اپنے پہاڑ اور گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

چیئرمین ڈاکٹر نسیم نے چین اور پاکستان نام نہاد اقتصادی کوریڈور پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا اس سے پہلے، پاکستان بلوچستان میں اکیلے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث تھا، لیکن اب چین نے بھی اس دباؤ کو تیز کرنے اور ایک نام نہاد ترقیاتی اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے اس سے گٹھ جوڑ کرلیا ہے، جو ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کے جبری نفاذ کے نتیجے میں بلوچستان میں اس روٹ پر رہنے والے ہزاروں مقامی لوگوں نے نقل مکانی کی اور انھیں جبری لاپتہ کیا گیا۔ سی پیک کی راہ ہموار کرنے کے لیے متعدد دیہاتوں کو جلا یا گیا اور چینی مفادات کی حفاظت کے نام پر کئی فوجی کیمپ اور چوکیاں قائم کی گئیں، درحقیقت یہ فوجی اہلکار انسانی حقوق کی وحشیانہ خلاف ورزیوں کے ذمہ دار ہیں۔ چینی پاکستان اتحاد سے نہ صرف مغربی مفادات کو خطرہ ہے بلکہ یہ اتحاد بلوچ عوام کے بنیادی انسانی حقوق پر بھی براہ راست حملہ کرتا ہے۔

انھوں نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی حالیہ صورتحال کو اجاگر کرتے ہوئے کہا صرف فروری 2023 میں جبری گمشدگی کے 39 کیسز سامنے آئے جن میں دو خواتین رشیدہ زہری اور ماھل بلوچ بھی شامل تھیں۔ ماھل بلوچ کو پہلے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ان پر عسکریت پسند ہونے کا جھوٹا الزام لگایا گیا۔ انھیں ان کی ساس اور دو بچیوں کے ساتھ اغوا کر لیا گیا تھا، اور ان سب کو 24 گھنٹے سے زائد عرصے تک لاپتہ رکھا گیا ، اگرچہ باقی رہا ہو گئے لیکن ماھل بلوچ جبری لاپتہ رہے۔بلوچ عوام کے شدید احتجاج اور مظاہروں کے بعد انھیں ایک ہفتے بعد عدالت میں پیش کیا گیا۔ اسی طرح رشیدہ زھری کو ان کے شوہر اور بچوں سمیت اغوا کیا گیا۔اگرچہ رشیدہ کو 11 دن کے تشدد کے بعد رہا کر دیا گیا لیکن ان کے شوہر رحیم زھری تاحال جبری لاپتہ ہیں۔ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ ضلع آواران کے علاقے گیشکور میں پیش آیا۔ یہ داد بخش مسکان کے سفاکانہ قتل کی خبر تھی۔ انھیں ایک فوجی کیمپ میں بلایا کر ان پر وحشیانہ تشدد کیا گیا، رہائی کے بعد وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

انھوں نے پاکستان کو نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے لیے ایک خطرہ قرار دیا ، ان کا کہنا تھا پاکستان نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتیں دنیا بھر میں عدم تحفظ اور انسانی جانوں کے زیاں کی بنیادی وجوہات کی نشاندہی کریں اور ان کا تدارک کریں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی بنائیں۔ یہ خطہ اس وقت تک کبھی بھی سلامتی اور استحکام حاصل نہیں کر سکتا جب تک پاکستان جنونیت اور دہشت گردی کی پرورش اور حمایت کرتا رہے گا۔ پاکستان کی مذہبی عسکریت پسند پراکسی بنانے اور استعمال کرنے کی پالیسی کے نتیجے میں بیشتر بے قابو جنگجوؤں اور اسلامی انتہا پسندوں کو بااختیار بنایا گیا ہے، جو بالآخر عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ پاکستانی تربیت یافتہ انتہاء پسندوں نے یورپ اور مشرق وسطیٰ سے لے کر بھارت تک دہشت گردانہ حملے کیے ہیں۔ مہذب دنیا کو ان خطرناک مذہبی جنونیت کے خلاف لڑنے والی قوموں اور مقامی تحریکوں کی حمایت کرنی چاہیے۔ بلوچ، سندھی اور پشتون جیسے اقوام صدیوں پرانی سیکولر تہذیبوں کو مذہبی انتہا پسندوں کے چنگل سے بچانے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ عالمی برادری کو اس فوری مسئلے کا نوٹس لینا چاہیے اور خطے میں آزادی کے لیے لڑنے والوں کی کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا بلوچ اپنی لبرل اور سیکولر اقدار کے تحفظ کے لیے پاکستان کی نظریاتی طور پر اسلامی فوج اور اس کے مذہبی پراکسیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری یہ تسلیم کرے کہ بلوچستان کا مسئلہ صرف علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ دنیا کو چینی تسلط اور بڑھتی ہوئی اسلامی انتہا پسندی کے خلاف آزادی کی جنگ میں بلوچ عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ یہ اس امر سے مربوط ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود یورپ پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات اور معاہدے برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایک عالمی اقتصادی اور سیاسی طاقت کے طور پر، یورپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کو بلوچستان میں اس کے اقدامات پر جوابدہ ٹھہرائے۔ ترجیحات کی عمومی اسکیم (جی پی ایس پلس) معاہدہ پاکستان سے انسانی حقوق کے قوانین اور اقدار کو برقرار رکھنے اور ان کا احترام کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم یورپ پر زور دیتے ہیں کہ وہ آئندہ اجلاس میں نہ صرف بلوچستان کی سنگین صورتحال کو سامنے لائے بلکہ پاکستان کو اس کے اعمال کا جوابدہ ٹھہرانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ بلوچستان کے لوگوں کے بنیادی حقوق اور وقار کے احترام کے لیے پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس اسٹیٹس میں توسیع کے لیے اجلاس کو مشروط یا منسوخ کیا جانا چاہیے۔ بلوچ عوام نے کافی نقصان اٹھایا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ یورپ ظالموں کے خلاف سخت موقف اختیار کرے اور مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔

انھوں نے خبردار کیا ، اگر عالمی برادری پاکستان جیسے فسطائی اور مذہبی انتہا پسند نظریات پر بننے والے ممالک کی حمایت جاری رکھے گی تو یہ عالمی دہشت گردی کو مزید خطرناک حد تک بڑھائے گی اور اسے برقرار رکھے گی۔

چیئرمین بی این ایم نے کہا ایک بار جب بلوچ عوام معدنیات سے مالا مال اپنی سرزمین پر اقتدار حاصل کرلیں اور ان کی مقبوضہ قومی ریاست کی آزادی کو بحال ہو تو ان کی ترقی پسند اقدار، آزاد تجارتی منڈی اور انسانی ہمدردی کی پالیسیاں بلوچستان، ہمسایہ ممالک اور پوری دنیا کے لیے پائیدار امن اور ترقی میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔

انھوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ ’ ترقی پسند، سیکولر معاشرے، آزاد تجارتی منڈی اور انسانی ہمدردی ‘ کے ساتھ بلوچ عوام کی اپنی سرزمین کے مالک بننے میں مدد کریں۔