داد بخش مسکان کا دن دہاڑے قتل فورسز کے مظالم کا ثبوت ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی

238

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گشکور میں بلوچ شہری داد بخش مسکان کی جبری گمشدگی، مسلسل اذیت اور بعدازاں ریاستی قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بلوچ نسل کشی کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو ایک قید خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں سیکورٹی فورسز آئے روز بلوچ نسل کشی میں تیزی کا مرتب ہو رہے ہیں اور یہ تسلسل دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ریاست نے بلوچستان کو ایف سی اور آرمی کے حوالے کر دیا ہے جنہوں نے بلوچستان میں ایک انسانی المیے کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے آئے روز لوگ قتل ہوتے ہیں ، جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنتے ہیں ، مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں جبکہ یہاں عدلیہ، پارلیمنٹ، سرکاری جماعتیں، سب انہی کے پیرول پر کام کرتے ہوئے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور اس ناانصافی اور جبر کو تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں جو کسی بھی المیہ سے کم نہیں۔ میڈیا سے لیکر مین اسٹریم سیاسی جماعتوں تک سب ان مظالم میں برابر کے شریک ہیں جنہوں نے سیکورٹی اداروں کو بلوچستان میں جاری ہر مظالم پر مکمل طور پر چھوٹ دی ہوئی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ داد بخش مسکان کو گشکور میں قائم سیکورٹی فورسز کے کیمپ میں گزشتہ چار دنوں سے مسلسل بلایا گیا اور ان سے اصرار کیا کہ آپ ہمیں ہتھیار فراہم کریں ، آپ کے پاس ہتھیار موجود ہیں، انہیں آئے دن کیمپ بلاکر اذیت دی گئی اور آج ایک مرتبہ پھر جسمانی اذیت دے کر نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا گیا تھا جس کے بعد وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اذیت ناک واقعات بلوچستان میں معمول بنتے جا رہے ہیں ، سیکورٹی فورسز کے موجود کیمپس بلوچستان میں بدامنی، قتل و غارت، ہراسٹمنٹ ، جبر اور بلاوجہ لوگوں کو تنگ کرنے کا سبب بنتے جا رہے ہیں اور آئے دن کسی داد بخش کو بلوچستان میں قتل کیا جا رہا ہے۔ اس قتل و غارت سے واضح ہو جاتا ہے کہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کے موجود کیمپس بلوچستان کے شہریو ں کو اذیت دینے انہیں موت کے منہ میں ڈالنے اور ان پر مظالم رچانے کیلئے قائم کیے گئے ہیں اور ان کا تعلق کسی طور پر سیکورٹی اور عوام کی حفاظت سے نہیں ہے۔ داد بخش مسکان کو مسلسل اذیت سے گزارنا اور بعدازاں اس کا حراستی قتل اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بلوچستان میں حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ ان مظالم میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ بلوچستان کو پاکستان کے عدلیہ، سیاست اور میڈیا سے مکمل طور پر الگ تلگ رکھا گیا ہے جس سے بلوچستان کا المیہ دن بدن سنگین ترین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

ترجمان نے بیان کے آخر میں داد بخش مسکان کے قتل میں ملوث سیکورٹی اہلکاروں کی فوری طور پر معطلی اور ان کیلئے سزا کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسے دن دہاڑے مظالم پر ریاست کے عدالتوں نے کچھ نہیں کیا تو ان پر بلوچستان کے شہریوں کا اعتبار مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان مظالم پر خاموش رہنے کے بجائے ریاستی ظلم اور ناانصافی کے خلاف سیاسی مزاحمت کا راستہ اپنائے جو ہمارے جینے کیلئے اب لازمی بن چکا ہے۔ سیکورٹی اداروں کے مظالم سے اب بلوچستان کا کوئی بھی گھر محفوظ نہیں ہے۔