بلوچستان میں فوجی چیک پوسٹیں اور عوام

478

بلوچستان؛ جہاں ہر قدم پر ہاتھوں میں بندوق تھامے فوجی اہلکار اور انکی چیک پوسٹیں نظر آتے ہیں، یہ شہریوں کے لئے باعثپریشانی بنے ہوئے ہیں۔

بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کوئٹہ لکپاس پر قائم ایک چیک پوسٹ کی وڈیو شئیرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان کے غربی شرقی سرحدوں پر دہشت گردوں کی دراندازی روکنے کے لیے کھربوں کی باڑ نصب اور فوجتعینات ہے لیکن وہاں اسمگلنگ جاری ہے لیکن بلوچستان کے ہر سڑک پہ ٹریفک بند ہے اور گاڑیوں میں دہشت گردوں کی تلاش ہو رہیہے جس کی وجہ سے عوام پریشان ہیں، اس کو فوراً بند ہونا چاہیے۔

ایک مسافر نے گذشتہ دنوں اپنے سفر کے بارے میں لکھا کہ تربت سے کراچی جانے کا رخ ہوا، سفر کے آغاز میں ہمارے نام اورشناختی کارڈ نمبر کسی پرچی پر لکھ کر ہر چیک پوسٹ پر جمع کر دیئے گئے۔ سفر جاری رہا، شام کے پانچ بجے ناکہ کھاڑی چیکپوسٹ پہنچے تو سب مرد اور بزرگوں کو بسوں سے اتارا گیا۔

اب ہمیں خود پتہ نہیں کہ ہم کون ہیں، یہ رواج سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارے خواتین کے سامنے ہمیں بسوں سے اتار کر ایسے تلاشیلیا گیا شاہد ہم دہشتگرد یا خود کوش بمبار ہوں۔

انہوں نے حکومت بلوچستان سے گزارش کی ہے کہ یہ سسٹم ختم کر دیں مسافروں کو تنگ کرنا چھوڑ دیں۔

جبکہ مختلف چیک پوسٹوں پر فورسز اہلکاروں پر بھتہ لینے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں تاہم اس حوالے محکمانہ کاروائی نظر نہیںآتی۔

سات گھنٹوں کا سفر دس گھنٹوں میں:

دی بلوچستان پوسٹ نے چیک پوسٹوں سے متعلق کچھ مسافروں کی رائے سنی۔

کریم بخش (فرضی نام) اپنے ایک بیمار بیٹی کو علاج کے لیے تربت سے کراچی لے جارہے تھے۔ اس دوران انہیں کئی چیک پوسٹوں پربار بار شناختی کارڈ اور روزانہ پوچھے جانے والے سوالات کا سامنا تھا۔

بیٹی شدید بخار میں آرام کی گولیاں لیکر سو رہی تھی کہ ناکا کارا ڈی چیک پوسٹ پر بس کو روکا گیا اور ایک سپاہی ٹارچر لے کراندر آیا اور سب کے شناختی کارڈ چیک کئے گئے، جو سو رہے تھے انکو اٹھایا گیا۔

کریم بخش کے مطابق جب اس نے میری بیٹی پر ٹارچ کی روشنی ماری تو میں نے کہا بیمار ہے آرام کی گولیاں لے کر سو رہا ہے۔

لیکن سپاہی نے کہا کہ صاحب کا حکم ہے کہ سب نیچے اترو۔ ہم اس حکم کے سامنے بے بس ہوکر نیچے اترے۔ بیٹی بخار کی وجہ سےکانپ رہی تھی، لگ بھگ چار سے چھ مسافر بسیں روکی گئیں تھی اور سب کے مسافر نیچے لائن میں کھڑے تھے۔ ناجانے ان میںکتنے مریض ہونگے جو شدید تکلیف میں یہاں صاحب کی حکم پر کھڑے تھے۔

انکے مطابق انہوں نے سپاہی سے گذارش کی کہ جلدی ہمارے سامان کی تلاشی لے کر ہمیں بس کے اندر جانے کی اجازت دی جائےکہ بیٹی کی حالت ابتر ہوتی جارہی ہے لیکن چار گالیاں دی گئیں۔

کریم بخش کہتے ہیں ہم نے سات گھنٹے کا سفر دس گھنٹے میں طے کیا۔ خستہ حال سڑکوں اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کے باعثکئی ڈرائیور تیز رفتاری کرتے ہیں تاکہ وقت پر پہنچ جائیں اور حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔

ایک اور مسافر نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ حق دو تحریک کے دھرنے کے وقت چیک پوسٹوں پر تعینات اہلکاروں کا رویہ بہتر تھالیکن اب جب حق دو تحریک کے رہنما جیل میں ہیں تو وہی پرانا روش اختیار کیا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں ان چیک پوسٹوں پر روزانہ عزت نفس مجروح ہونے سے بہتر ہے کہ ٹرانسپورٹر اور سیاسی پارٹیاں آواز اٹھائیں۔

تربت تا کوئٹہ، کوئٹہ تا کراچی چیک پوسٹوں پر رویہ:

آل کوئٹہ کراچی کوچز یونین کے مرکزی صدر عبداللہ کرد کے مطابق کوسٹ گارڈ کا ظلم و جبر جو مسلسل ٹرانسپورٹرز کے ساتھجاری

ہے اس ناروا سلوک کی وجہ سے اب ہمارے لئے ٹرانسپورٹ چلانا دشوار ہوچکا ہے ۔

انکے مطابق بلوچستان بالخصوص کوئٹہ کراچی روٹ کے ٹرانسپورٹروں کے ساتھ کوسٹ گارڈ ناکہ کھاڑی چیک پوسٹ کی جانب سےسوتیلی ماں جیسی سلوک کا سلسلہ گذشتہ کئی وقت سے جاری ہے، آئے روز ٹرانسپورٹ کو مختلف طریقوں سے ناجائز تنگ کرکے بندکرنے کی کوشش کی جاری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں ٹرانسپورٹ چلانا پہلے سے ہی سے ناممکن ہوچکا ہے،  پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافے سے ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آگیا ہے، ہر شے عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہے، گاڑیوں کے اسپئیر پارٹس وغیرہکی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، گاڑیوں کے خرچے پورے ہی نہیں ہو رہے ہیں اوپر سے کوسٹ گارڈ کی عوام کش پالیسیوں نےبلوچستان کے عوام کا معاشی قتل شروع کردیا ہے، مہنگائی سے بلوچستان کے عوام پہلے سے ہی پریشان تھے رہی سہی کسر کوسٹگارڈ نے پوری کر دی ہے۔