آپریشن گنجل، قومی تحریک پر اثرات اور دشمن کی نفسیاتی شکست – منیر بلوچ

934

آپریشن گنجل، قومی تحریک پر اثرات اور دشمن کی نفسیاتی شکست

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قوموں کی زندگیوں میں کچھ دن تاریخی اہمیت کے حامل دن ہوتے ہیں کیونکہ یہی خاص دن قوموں میں قربانی کا جذبہ بیدار کرنے اورانہیں ہر مشکل صورتحال سے نبردآزما ہونے کا فن سکھاتے ہیں.انہی خاص دنوں میں قوموں کی آزادی کا دن بھی آتا ہے جو ان کےاسلاف کی قربانیوں کی مرہون منت ہوتی ہے، جس دن فرزندان زمین اپنے اسلاف کو یاد کرکے یہ عہد کرتے ہیں کہ اپنے جان سے بھیزیادہ اپنے سرزمین کی حفاظت اور ترقی ہماری ذمہ داری ہے.

اگر بات بلوچستان کی کریں تو بلوچستان کی تاریخ میں 13 نومبر ،11اگست اور 27 مارچ ناقابل فراموش دن ہے کیونکہ انہی دنوں میںانگریز نے بلوچ زمین پر قبضہ کیا ،بلوچستان کو آزادی نصیب ہوئی اور پھر پاکستان نے بلوچ سرزمین پر قبضہ کرکے غلامی کی دلدلمیں دھنسا دیا.

بلوچستان میں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا کہ بلوچ جبری گمشدگی کا شکار نہ ہو ، بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد نہ ہو ،فوجیآپریشنز نہ ہو ،لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور نہ کیا گیا ہو ،عوام کے گھروں کو نذر آتش نہ کیا گیا ہو،اجتماعی قبروں کی برآمدگی اورجعلی مقابلے نہ ہو.آسان لفظوں میں کہ بلوچستان میں گزرنے والا ہر دن سیاہ ہوتا ہے کیونکہ غلامی ایک اندھیرے کا نام ہے اور اندھیراسیاہ ہی ہوتا ہے.

جس طرح بلوچستان کے لئے گیارہ اگست ایک یادگار دن کی حیثیت رکھتا ہے اسی طرح بلوچستان کے عوام کے لئے دو فروری کا دنہمیشہ اہمیت کا حامل اور ناقابل فراموش دن میں شمار کیا جاچکا ہے کیونکہ اس دن سولہ سرفروشان وطن نے وہ کارنامہ انجام دیاجس سے نہ صرف دشمن میں کھلبلی مچ گئی بلکہ بلوچ سماج میں بلوچ قومی تحریک کے لئے قربانی کا جذبہ پھر سر اٹھانے لگا.

جس طرح ویتنام کے عوام کے لئے سات مئی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس دن جنرل گیاب کی سربراہی میں چھپن دنوں سےجاری دین بین پھوکی کی جنگ میں پوری فرانیسی ہائی کمان اور ہزاروں سپاہی گرفتار ہوئے اور جنیوا میں معاہدہ کرنے پر راضیہوئے اس طرح تیس و اکتیس جنوری 1968 ویتنام کے لئے ایک تاریخی اہمیت کی حیثیت رکھتا ہے۔

جس طرح کیوبن عوام کے لئے سانتا کلارا پر گوریلوں کا قبضہ ہے جس نے کیوبن عوام کو ایک سوشلسٹ ریاست بنانے میں اہم کردارادا کیا دو فروری کا دن ہمیشہ بلوچ قوم کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس دن ایک ایسی تاریخ نقش کی گئی جو رہتی دنیاتک ان فرزندان زمین کو یاد رکھے گی اور دنیا کے مظلوموں کو یہ یاد دہانی کرائے گی کہ آزادی کی بہاروں کو دیکھنے کے لئےنوجوانوں کو بھی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے اور اپنا خون بہانا پڑتا ہے.

آپریشن گنجل پر کچھ لکھنے سے قبل مجید بریگیڈ کی بنیاد اور تاریخ کے علاوہ گنجل کی زندگی اور مزاحمت کو بیان کرنا ضروری ہےتاکہ ان قربانیوں کی بنیاد کو سمجھا جاسکے.

مجید بریگیڈ کی تاریخ

مجید بریگیڈ کی بنیاد اس دن پڑی جب مجید ثانی نے فدا ہونے کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنے ساتھیوں کو بحفاظت نکال کر دشمنپر قہر بن کر ٹوٹا اور اسی جھڑپ میں جام شہادت نوش کی. مجید اول اور مجید ثانی نے فدا ہونے کی جو رسم قائم کی آج وہ رسم ہربلوچ کے خون میں رچ بس چکا ہے اس لئے جدید بلوچ گوریلا وار فیئر کے بانی شہید جنرل استاد اسلم بلوچ نے سترہ مارچ دو ہزاردس کو یہ فیصلہ کیا کہ بلوچ لبریشن آرمی اپنے تنظیم کے اندر ایک فدائی بریگیڈ تشکیل دے گی جس کا نام انہوں نے مجید بریگیڈرکھ دیا اور اسی دن مجید بریگیڈ کی بنیاد رکھی گئی.

مجید بریگیڈ کی کاروائیاں

مجید بریگیڈ کی تشکیل کے ایک سال نو مہینے اور تیرہ دن کے بعد یعنی تیس دسمبر 2011 کو بی ایل اے کے پہلے فدائی شہید بازخان مری عرف درویش نے دشمن کے صفوں میں گھس کر نہ صرف قہر بن کر ٹوٹا بلکہ ایک تاریخ رقم کی اس حملے کے سات سال کےبعد شہید ریحان جان نے دالبندین میں چائینیز انجینئرز کی بس پر فدائی حملہ کرکے قومی تحریک میں ایک ایسی روح پھونک دی جسکی تحریک کو اشد ضرورت تھی ،شہید ریحان جان کے بعد فدائی حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو دشمن کو ایک نفسیاتی مریضکی صورت میں نمودار کرنے میں کامیاب ہورہا ہے. تیسرا فدائی حملہ چینی قونصلیٹ کراچی میں شہید ازل خان،شہید رازق اور شہیدرئیس نے کیا جبکہ چوتھا حملہ گوادر میں ذر پہازگ کے نام سے شہید اسد،منصب، کچکول اور حمل نے کیا اور حمل جئنید کو ایکمرتبہ پھر زندہ کیا.

پانچواں فدائی حملہ کراچی اسٹاک ایکسچنج پر 29 جون 2020 کو شہید سلمان حمل،سراج کنگر،شہزاد اور تسلیم بلوچ نے سرانجامدیا جبکہ چھٹا فدائی حملہ شہید عمر جان نے اگست دو ہزار اکیس کو گوادر میں چینی قافلے کو نشانہ بنا کر انجام دیا. ساتواںفدائی آپریشن گنجل نوشکی اور پنجگور میں دو فروری 2022 کو سولہ فدائیں وطن نے سر انجام دیکر پاکستان کے فوجی کیمپوں پرقبضہ کرکے ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی ان دونوں فدائی حملے میں دشمن کے دو سو سے زائد فوجی نشان عبرت بن گئے جبکہآٹھواں فدائی حملہ پہلی بلوچ فدائی خواتین شہید شاری بلوچ نے کراچی یونیورسٹی میں چینی انسٹیوٹ کے استادوں کو نشانہ بنا کرسر انجام دیا.

شہید گنجل کون تھا؟

ایک سیاسی و مزاحمتی استاد جس نے اپنی زندگی اور مزاحمت سے بہت کچھ سکھایا جس کے بارے میں بی ایل اے کے کمانڈرانچیف چئیرمین بشیر زیب کہتے ہیں سنگت گنجل بلوچ، بلوچ قومی تحریک میں ایک بے مثال کردار کے مالک جہدکار تھے، آپ نا صرفپیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک ایک جنگی کمانڈر تھے بلکہ ایک سیاسی استاد بھی تھے۔

سنگت گنجل بلوچ پندرہ جنوری انیس سو ستاسی کو لیاری میں پیدا ہوئے. ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے حاصل کی اور میٹرک لیاریکے اسکول سے 2002 میں پاس کیا.سنگت گنجل بلوچ نے دو ہزار چھ کو اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بلوچستان کی سب سے متحرکتنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد سے کیا اور مختلف ادوار میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ ڈپٹی یونٹ سیکرٹری،یونٹ سیکرٹریاور زونل عہدوں پر بھی فائز رہے. دو ہزار تیرہ سے لے کر دو ہزار پندرہ کے سیشن تک بی ایس او کراچی زون کے صدر رہے. جبکہ دوہزار پندرہ کے سیشن میں بلامقابلہ مرکزی کمیٹی کے ممبر منتخب ہوئے اور اپنی سیاسی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی سر انجامدیا۔ 2018 کے کونسل سیشن میں بی ایس او آزاد سے فراغت کے کچھ عرصے بعد بلوچ مسلح تنظیم بی ایل اے میں شمولیت اختیارکی۔ مختلف محاذوں میں حصہ لیا اور اپنی قابلیت اور جدوجہد سے لگن کی وجہ سے سپاہی سے کمانڈر کے عہدے تک جاپہنچے اوراپنی شہادت تک تمام ذمہ داری بہتر طریقے سے سر انجام دیتے رہے.

سنگت گنجل بلوچ چوبیس ستمبر دو ہزار اکیس کو دشمن فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ بہادری کےساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے

آپریشن گنجل

آپریشن گنجل کا نام آپریشن گنجل کیوں رکھا گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ سنگت گنجل ایک فدائی تھے اور نوشکی اور پنجگور میںہونے والے حملوں میں نہ صرف ان کا نام شامل تھا بلکہ وہ اس فدائی حملے میں آپریشنل کمانڈ تھے۔ اس لئے بی ایل اے کے سپریمکمانڈ نے اس آپریشن کا نام شہید گنجل عرف مزار سکونت لیاری کراچی کے نام سے منسوب کیا.

آپریشن گنجل کی شروعات

آپریشن گنجل کا آغاز دو فروری رات آٹھ بجے نوشکی اور پنجگور میں ایک ہی وقت میں کئے گئے۔ اس آپریشن میں مجید بریگیڈ کے 16 فدائین نے حصہ لیا جن میں 7 پنجگور مرکزی کیمپ میں داخل ہوئے جبکہ 9 فدائیوں نے نوشکی میں دشمن ہیڈ کواٹرز کو تہس نہسکردیا، یہ دونوں فدائی حملے 72 گھنٹے جاری رہے جس میں دشمن فوج کے 195 اہلکار ہلاک ہوئے جن میں ایس ایس جی کمانڈوز کےعلاوہ گاڑیوں اور ہیلی کاپٹرز کو بھی نقصان پہنچا۔

نوشکی آپریشن

نوشکی ہیڈ کواٹرز میں شامل فدائیوں کی تعداد نو تھی جن کو کمانڈ فدائی بادل بلوچ کررہے تھے جن کے دیگر ساتھیوں میں عزیززہری،انیل بلوچ،بلال بلوچ،ابراہیم بلوچ مراد آجو ،یاسر نور ،دیدگ بہار اور میرین جمالدینی شامل تھے۔ میرین جمالدینی نے بارود سےبھری گاڑی مرکزی کیمپ سے ٹکرائی جس سے مرکزی گیٹ تباہ ہوگیا جس کے بعد دیگر فدائین کیمپ میں داخل ہوگئے اور دشمن فوجپر قہر بن کر ٹوٹے۔ نوشکی آپریشن 20 گھنٹہ جاری رہا ،اس آپریشن میں دو افسروں سمیت 90 اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ لاتعداد زخمیہوئے اور کیمپ کا ایک حصہ مکمل تباہ ہوگیا

پنجگور آپریشن

پنجگور آپریشن کا آغاز بھی دو فروری کی رات آٹھ بجے شروع ہوا جس میں سات فدائیوں نے یونٹ کمانڈر حامد بلوچ کی کمانڈ میںدشمن فوج کو 72 گھنٹوں تک تگی کا ناچ نچایا ،دیگر ساتھیوں میں سمیع سمیر،ضمیر بلوچ ،اسد واھگ ،ناصر امام ،الیاس بلوچ اورجمال بلوچ شامل تھے۔ پنجگور مرکزی کیمپ کے مرکزی دروازے پر فدائی جمال بلوچ نے بارود سے بھری گاڑی ٹکرادی جس سےمرکزی گیٹ کی حفاظت پر مامور سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے جس کے بعد دیگر چھ فدائیوں نے مرکزی ہیڈ کواٹرز پر اپنا قبضہ جما کردشمن فوج کے اہلکاروں کو ہلاک و زخمی کیا۔ بی ایل اے کے بیان کے مطابق جب دشمن فوج پر حملہ ہوا تو انہوں نے فدائیوں کا حملہکرنے کے بجائے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھا۔

پنجگور ہیڈ کواٹرز پر قبضے کے بعد دشمن فوجیوں نے کیمپ کا قبضہ چھڑانے کے لئے فضائی کی مدد لی لیکن بلوچ فدائیوں نے ہیلیکاپٹرز اور بکتر بند گاڑیوں پر پانج کامیاب حملے کرکے دشمن کو ناکام بنایا بھاری شیلنگ،زمینی فوج کے سامنے سات فدائیوں نے تیندن تک کیمپ پر قبضہ برقرار رکھا اور 72 گھنٹے تک دشمن فوج کو سبق سکھاتے رہے پنجگور حملے میں دشمن فوج کے 105 فوجیہلاک ہوئے متعدد زخمی ہوئے گاڑیوں اور ہیلی کاپٹرز کو بھی نقصان پہنچابلوچ فدایان نے ان دونوں حملوں میں عالمی جنگی قوانین کیپاسداری کی بھی مثال قائم کی جب فدائی کیمپ کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے فوجی افسران اور اہلکاروں کے خاندان کے افراد جنمیں خواتین اور بچے شامل تھے انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا اور یہ ثابت کیا کہ بلوچ قوم کی جنگ آزادی کی جنگ ہے اس میں صرفقبضہ گیر کو نشانہ بنایا جائیگا جو بلوچ نسل کشی میں ملوث ہے انہیں مارا جاے گا، خواتین اور بچوں کو نہیں مارا جائے گا.

قومی تحریک پر اثرات

مابعد آپریشن گنجل بلوچ قومی تحریک نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے کیونکہ اس حملے نے نہ صرف حواس باختہ دشمن کو خوفزدہاور نفسیاتی مریض بنادیا ہے بلکہ بلوچ عوام خاص کر نوجوانوں میں ایک نیا جوش و جذبہ بیدار کردیا ہے اور نوجوان جوق در جوقبلوچ قومی تنظیموں اور پارٹیوں میں شمولیت اختیار کررہے ہیں اور تحریک کی مضبوطی میں اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کررہےہیں۔ مابعد آپریشن گنجل یہ بات پاکستان کے لئے بھی واضح ہوچکا ہے کہ بلوچ اپنے سرزمین کے دفاع کے لئے سیاسی شعور سےلیس ہو کر ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔ یہ حملہ دنیا کو بھی ایک پیغام تھا کہ بلوچ مزاحمتی تنظیموں کی جڑیںبلوچ سماج میں پیوست ہے اور وہ اپنے عوام کی مدد وتعاون سے بڑے سے بڑا حملہ کرنے کی طاقت و استطاعت بخوبی رکھتے ہیں۔ یہایک حقیقت ہے کہ آج بلوچ قومی تحریک ایک حقیقی و شعوری تحریک کی جانب گامزن ہے جس نے نوجوانوں میں ایک امید کی کرنپیدا کردی ہے اور ان میں اس سوچ کو تقویت فراہم کی ہے کہ جہد کاروں کی محنت اور ان کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جائیگیکیونکہ جس زمین کے ذرے ذرے میں شہدا کا لہو عطر بن کر پوری سماج کو معطر کردے وہاں ایسے فدائی ہر دور میں جنم لیتے رہینگےاور جب تک پاکستانی ریاست بلوچ سرزمین سے انخلا نہیں کریگی آپریشن گنجل ،آپریشن زرپہازگ سر انجام دئیے جاتے رہینگے۔

مابعد آپریشن گنجل بلوچ عوام کے ذہنوں میں یہ بات نقش ہوچکی ہے کہ پاکستان جیسے ناسور ریاستیں کبھی پر امن طریقے سے انکی زمین سے انخلا نہیں کریگی بلکہ وہ مسلح جدوجہد سے ہی بلوچ سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور ہوگی اور مسلح جدوجہد ہی ہمارےقومی بقاء کے لئے لازمی امر ہے۔

دشمن پر نفسیاتی اثرات

بلوچستان میں بلوچ مسلح تنظیموں کے حملوں نے پاکستانی فوج کو اتنا حواس باختہ کردیا ہے کہ وہ حواس باختگی کی وجہ سے ایکنفسیاتی مرض میں مبتلا ہوگیا ہے ،حملوں کے خوف نے سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے چوکیاں چھوڑنے پرمجبور ہے،خود کشیاں کرنے پر مجبور ہے۔

دشمن فوج پر نفسیاتی اثرات کا اگر جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے جب مجید بریگیڈ کے فدائیوں نے نوشکی اور پنجگور ہیڈ کواٹرز پر حملہکیا تو کچھ ہی گھنٹوں میں جانبازوں نے پورے کیمپ کو اپنے قبضے میں کرلیا اور دشمن فوج پر پے در پہ حملہ کرکے انہیں مکملنیست و نابود کردیا جن کی مدد کے لئے ہیلی کاپٹر،ڈرون طیارے ایس جی ایس کمانڈر منگوائے گئے لیکن وہ مکمل نیست و نابودرہے.اس وقت کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے جھوٹے بیانات اور پریس کانفرنس ،وزیر اعظم عمران خان کا دورہ نوشکی اورپنجگور ،جنرل باجوہ کا دورہ اور فوج کی تنخواؤں میں پندرہ فیصد اضافہ صرف فوج کے گرتے مورال کو بحال کرنا تھا تاکہ وہبلوچستان میں ڈیوٹی دے سکیں۔

پاکستانی حکام نے اس حملے میں صرف اپنے درجن بھر اہلکاروں کی اموات کو قبول کیا تھا جو دیگر اہلکاروں کے مورال کو بلند کرنےکا ایک شوشہ تھا درحقیقت جی ایچ کیو سے آرمی آفیشل لیٹر پیڈ سے جاری ہونے والا مراسلہ جو وزیر اعظم کو جاری ہوا تھا اس میں190 اہلکاروں کے ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی.

ان سارے اعمال کا مقصد ظاہر کرتا ہے کہ مجید بریگیڈ کے حملہ آوروں نے پاکستانی فوج کو ایک نفسیاتی بیماری میں مبتلا کیا ہےاور مجید بریگیڈ کے خوف نے ان کی نیندیں اڑادی ہے.اس خوف پر ایک فلمی ڈائیلاگ یاد آرہا ہے کہ جو خوف تم ہماری آنکھوں میںدیکھنا چاہتے تھے آج وہ خوف تمہاری آنکھوں میں صاف نظر آرہا ہے.

حال ہی میں بلوچستان بھر میں تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق بی ایل اے خاران اور نوشکی میں آپریشن گنجل طرز کیکاروائی کرسکتا ہے،کیمپ کے گزرگاہوں پر چیکنگ کا عمل سخت کردیا گیا ہے اور پورے بلوچستان میں ریڈ الرٹ کا حکم دیا گیا ہے جوان پر آپریشن گنجل کا نفسیاتی اثر ظاہر کرتا ہے.

اختتامیہ

یہ ایک آپریشن نہیں تھا بلکہ داستان تھی محبت کی ،عشق کی،،لازوال جذبوں کی جو وطن کے فرزندوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ چھومکر ،بغل گیر ہو کر انجام دیا اور دنیا کو ،اپنے قوم کو یہ پیغام دیا کہ ہم اپنے سرزمین کے لئے دنیا کی کسی بھی طاقت سے لڑ سکتےہیں اور سر زمین کی محبت سے بڑھ کر کسی غلام قوم کے فرزند کے لئے کوئی بھی محبت اہمیت نہیں رکھتی.دو فروری کا دن ہمیشہتاریخ کے پنوں پر جگمگاتا رہے گا اور ان جانثاران وطن کو خراج عقیدت پیش کرتا رہےگا جنہوں نے جوانی کی رعنائیوں کو وطن کے لئےقربان کردیا ،یہ دن تجدید عہد کا دن ہے کہ جب وطن غلام ہو تو کسی طرح کے بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئیے بلکہ جذبہ وشعور کے امتزاج سے دنیا کو بدل دینے کا حوصلہ پیدا کرکے مظلوم قوموں کے اندر ایک تحرک کو پیدا کرنا چاہئیے تاکہ غلامی کے دلدلسے نکل کر ایک آزاد زندگی گزارنے کا حق حاصل کیا جاسکے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں