کراچی: لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے احتجاج جاری

96

کراچی میں قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4927 دن ہوگے، آج اظہار یکجہتی کرنے والوں میں حیدرآباد سے سیاسی و سماجی کارکن داد محمد ، خیربخش تالپور ، اور دیگر شامل تھے۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ رہنماوں اور کارکنوں پر غیر انسانی تشدد ، اذیت رسانی، قتل، اور لاشوں کو مسخ و گم کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستان فوج کا روز اول سے بیانیہ یہی رہا ہے کہ جبری لاپتہ افراد ہمارے پاس نہیں ہیں اور یہ لوگ افغانستان یا دبئی گئے ہوئے ہیں، یا پھر پہاڑوں میں جنگ لڑ رہے ہیں، کوئی ان سے پوچھے ہزاروں بلوچ نوجوانوں کی لاشیں کس نے پھینکی ہیں کیا یہ آسمان سے گرے ہیں، خوش قسمتی سے چند لوگ اگر بازیاب ہوتے ہیں تو اس کا کریڈٹ لیتے ہیں، اور یہ بیانیہ دیتے ہیں کہ مسخ شدہ لاشیں بلوچوں کی آپس کی رنجشوں کی وجہ سے ہے ، اور اس بات کو نہیں مانتے کہ لاشیں گرانے والے انکے اپنے خفیہ اداروں کے لوگ ہیں، کیا وہ افراد لاپتہ کرنے والوں کو کوئی سزا دیں گے۔ جہاں تک تحقیقات کرنے کا سوال ہے تو تحقیقات کرنے سے قبل انہوں نے کہہ دیا ہے کہ اس میں خفیہ ایجنسیاں ملوث نہیں ہیں، کیا یہ عدالتیں، کمیٹیاں ، کمیشن ان اداروں کو کوئی سزا دے گا ، میرے خیال میں یہ ایک احمقانہ بات کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا ریاست ایک قابض ہے وہ اپنا قبضہ جمانے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے ، نہ ریاست اپنے آپریشن کو بند کرے گا ، نہ ہی ڈیتھ اسکواڈ ختم کریگا ، نہ لاشیں گرانے کا سلسلہ بند کریگا ، نہ ہمیں ترقی دے گا ، یہ ریاست ہمیں صرف گولی ، لاشیں ، قبرستان کے سوا کچھ نہیں دے گا ، بلوچستان میں ریاست کی خونی آپریشن اپنی تمام تر سفاکیت اور ہولناکیوں کے ساتھ جاری و ساری ہے ، آج بلوچستان کا کوئی گھر نہیں بچا جہاں پاکستان فورسز نے اپنی بربریت کی صورت فوج کشی نہ کی ہو ، ہماری جدوجہد آخری لاپتہ شخص کی بازیابی تک جاری رہیگی۔