بلوچستان کی دم توڑتی مائیں ۔ دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ

500

بلوچستان کی دم توڑتی مائیں 

دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ

تحریر: فتح بلوچ

بلوچستان میں دوران زچگی اموات میں خطرناک حد اضافہ ہوچکا ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس سال بلوچستان میں زچگی کے دوران شرح اموات ایم ایم آر 650 فیصد سے زیادہ ہے۔

گذشتہ دنوں ضلع ڈیرہ بگٹی میں ایک اور خاتون دوران زچگی نومولود سمیت جاں بحق ہوگئیں۔ دس روز کے دوران ڈیرہ بگٹی میں جان بحق خواتین و نومولود بچوں کی تعداد چھ ہوگئی۔

ذرائع کے مطابق ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ڈیرہ بگٹی میں گائناکالوجسٹ کی عدم موجودگی کے باعث حاملہ خواتین کے اموات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔

گذشتہ دنوں محلہ ژانکو کے مکین سعید بگٹی کا جوانسال اہلیہ دوران زچگی اپنے نومولود سمیت انتقال کرگئیں، جاں بحق خاتون دو بچوں کی ماں تھی۔

بلوچستان کے بیشتر علاقے جہاں لیڈی ڈاکٹر یا لیڈی ہیلتھ ورکر جیسی سہولت بھی موجود نہیں وہاں دائیوں پر انحصار جاری ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ حمل یا زچگی کے دوران ہر خاتون پیچیدگیوں سے گذرے لیکن یہ ضروری ہے کہ غیر تربیت یافتہ دائیوں اور عطائی ڈاکٹرز سے گریز کیا جائے اور پیچیدہ ڈلیوری سے بچنے کے لیے فوری طور پر حاملہ خاتون کو ہسپتال لے جایا جائے۔

ڈیرہ بگٹی کے علاوہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں یہی صورتحال ہے۔ اس اہم مسئلے کو لے کر دی بلوچستان پوسٹ نے ضلع کیچ کے ایران سے متصل تحصیل مند میں 32 سالہ پری گل (فرضی نام) کی دردناک واقعہ کو قلم بند کیا۔

پری گل کی شوہر کہتے ہیں کہ جب انہیں تکلیف محسوس ہوئی تو وہ حسب روایت علاج معالجہ کیلئے مقامی دائی کے پاس چلی گئیں، شروع کے دنوں میں انہوں نے مقامی دائی (خواتین جو گھریلو سطح پر زچگی کے کیسز نمٹاتی ہیں) کی تجویز کردہ دیسی ادویات استعمال کیں جس سے انہیں وقتی طور پر آرام مل گئی۔

ایک رات جب درد کی شدت زیادہ بڑھ گئی تو انہیں مزید علاج معالجہ کیلئے تربت لیجانے کا بندوبست کیا ۔

کچھ پیسے ادھار لے کر جلدی سے ایک کرایہ کی گاڑی کا بندوبست کیا اور تربت کی طرف نکلے۔ ایک گھنٹے کی سفر خستہ خال سڑکوں کی وجہ سے چار گھنٹے میں طے کی اور تربت پہنچتے ہی بیوی دم توڑ چکی تھی۔

وہ کہتے ہیں یہ صرف میرے ساتھ نہیں یہاں ہر دس گھر میں سے دو کی یہی کہانی ہے۔

ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں دوران زچگی شرح اموات کی صورتحال بدستور سنگین ہے، صوبے میں زچگی کے دوران ایک لاکھ میں سے 298 مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، یہ شرح قومی اوسط سے دوگنا اور پاکستان کے کسی بھی دوسرے صوبے سے کافی زیادہ ہے، اب بھی دیہی علاقوں سے زچگی کے دوران ہونے والی اموات کی ایک بڑی تعداد رپورٹ نہیں ہوتی جس کے باعث تجزیہ رپورٹ اور اموات زچگی کے تمام عوامل کی درست نشاندہی نہیں ہوتی۔

بولان میڈیکل کالج کوئٹہ گائنی یونٹ کے پروفیسرڈاکٹرنجمہ کہتی ہے کہ بلوچستان کاخستہ حال انفراسٹرکچر کے دوران زچگی شرح اموات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے لیکن سیلاب کے بعد انفراسٹرکچر مزید تباہ ہوگئی ہے جس سے حاملہ خواتین کو طبی مقامات تک پہنچنے میں شدید مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے

ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے 25 میں 735 بنیادی مراکز صحت میں 196 بی ایچ یوز سیلاب و بارشوں سے متاثر ہوئی ہیں جن میں 24 بی ایچ یوز مکمل تباہ ،173 بی ایچ یوز کی عمارتیں و دروازوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے ۔

پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے جہاں ایک لاکھ زچگیوں کے دوران 298 مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

محکمہ صحت کے مطابق زچگی کے دوران 1000 میں 78 کو 50 اور ایک لاکھ میں 298 خواتین کی اموات کو 200 تک لانے کیلئے کوشاں ہے جس کیلئے ایل ایچ ویز کی کمی کو پورا اور گائنا کالوجسٹ کی بھرتیاں کی جارہی ہے ۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد کے رپورٹ 2021ء کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ غربت کی شرح 40.7فیصد بلوچستان میں ہے ۔

خیال رہے کہ بجٹ2022، ـ2021 میں صوبائی حکومت نے بلوچستان بھر کے اضلاع کے لئے صحت کی مد میں 38ارب روپے رکھے ہیں۔ اس سے ہسپتالوں میں صحت کی تمام سہولیات مہیا کرنا عوام کو علاج و معالجے کی سہولیات دینا ہسپتالوں کو جدید مشینری کی فراہمی اور نئے ہسپتال قائم کرنا شامل تھے ۔

جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے 2.937 بلین روپے کی گرانٹ بھی فراہم کی گئی۔ اس مختص رقم سے 5 جدید لیبارٹریز بھی قائم کرنے تھے تاہم بدقسمتی سے حسب روایت یہ رقم کرپشن کی نظر ہوگئی۔

سماجی و سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ دوران زچگی شرح اموات میں کمی کی جاسکتی ہے اگر بلوچستان بھر میں بنیادی صحت کے مراکز کو فعال کرکے سہولیات فراہم کی جائے جبکہ اس حوالے سے لوگوں کو ‘کونسلنگ’ کی بھی ضرورت ہے لیکن تمام اقدامات حکومت کو ہی اٹھانے ہونگے۔