نشتر ہسپتال واقعے پر اعلیٰ سطح کی تحقیقات کی جائے – بلوچ یکجہتی کمیٹی

330

جب بھی پاکستان کے کسی بھی حصے میں لاوارث یا نامعلوم لاشیں مل جاتی ہیں تو اس کی شدت بلوچستان میں ضرور محسوس کیجاتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار بلوچ یکجہتی کمیٹی شال کی جانب سے نشتر ہسپتال میں نامعلوم افراد کے مسخ شدہ لاشوں کیبرآمدگی پر کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے موقع پر کی گئی۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ گذشتہ دنوں سے میڈیا میں ایک خبر گردش کررہی ہے کہ ملتان کے نشتر ہسپتال سےمتعدد  لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ جن کے حوالے سے اسپتال انتظامیہ و پنجاب حکومت شد و مد سے کام لیتے ہوئے مسئلے کو دبانے کیکوشش کر رہے ہیں۔ ان لاشوں کے حوالے سے ہسپتال انتظامیہ اور وزیراعلی پنجاب کے ایک مشیر کے موقف میں موجود تضادات نےاس معاملے کو مزید گھمبیر بنادیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر کے مطابق لاشیں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں جبکہ ہسپتالانتظامیہ کے مطابق لاشوں کی تعداد چار ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لاشوں کی تعداد چار ہو یا چار سو لیکن اس حالت میں لاشوں کیبرآمدگی کئی سوالات جنم دے رہی ہے اور یہ سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ صوبائی سطح پر بنایا جانا والا کمیٹیایک مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس طرح انسانی لاشوں کی برآمدگی سے حکومت نے فوری طور پر کارروائی کے بدلے تین دن تکہسپتال انتظامیہ کو رپورٹ جمع کرانے کی تاکید کی ہے جو انتہائی شرمناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی پاکستان کے کسی بھی حصے میں لاوارث یا نامعلوم لاشیں مل جاتی ہیں تو اس کی شدت بلوچستان میںضرور محسوس کی جاتی ہے کیونکہ بلوچستان میں ہر وقت اسی طرح مسخ شدہ لاشیں دشت ویران اور ندی نالوں سے برآمد ہوتے ہیںجو لاپتہ افراد کی ہوتی ہیں اور اکثر و بیشتر ان کو نامعلوم قرار دے کر خاموشی سے دفنایا جاتا ہے۔

بلوچستان میں اکثر لاپتہ افراد کو قتل کرنے کے بعد ان کے جسم سے اعضاء نکالے جاتے ہیں اور لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیتےہیں جبکہ بلوچستان میں اکثر و بیشتر اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوتی رہتی ہے جہاں پہلے سے لاپتہ افراد کو مار کر اجتماعی طورپر دفنایا جاتا ہے۔ 2018 میں پنجگور اور 2013 میں توتک سے ایسی قبریں دریافت ہوئی ہیں جہاں درجنوں جبری طور پر لاپتہ افرادکو مار کر دفنایا گیا تھا جس کے سبب حالیہ واقعے سے بلوچستان میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ  اذیت میں مبتلا ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سنگین معاملے کو متنازعہ بنانے کے لیے میڈیا میں مختلف بیانیے سامنے لائے جارہے ہیں۔ ہم یہاں واضحکرتے ہیں کہ لاشیں چار ہو یا چار سو لیکن جس طرح ان کو قتل کرکے ان کے جسم سے اعضاء نکالنے کے بعد نامعلوم قرار دیکرہسپتال کے چھت پر پھینکنا انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے جس کی فوری طور پر تحقیقات ہونی چاہیے ہے۔  ہم اس پریس کانفرنسکی توسط سے سپریم کورٹ آف پاکستان اور انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نشتر ہسپتال سے برآمد لاشوں کیشفاف طریقے سے ڈی این اے ٹیسٹ کرائی جائے اور اس بات کو واضح طور پر سامنے لایا جائے کہ ان لاشوں کو کہاں سے اور کیسےلائی گئ ہیں۔ جبکہ اس واقعے کے ذمہ داران کو قانون کے کہٹرے میں لایا جائے۔  اگر اس مسئلے کو سرد خانے کی نظر کرنے  کیکوشش کی گئی یا اس کی شفاف تحقیقات نہیں ہوئی تو اس کے خلاف بلوچستان بھر سے احتجاجی سلسلوں کا آغاز کیا جائے گا۔