ریاستی پالیسیاں بلوچ قوم میں مزید نفرت پیدا کررہی ہیں۔ ماما قدیر بلوچ

131

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچ سیاسی کارکنوں کی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا ااحتجاجی کیمپ 4770 ویں روز جاری رہا۔

آج ضلع پنجگور سے مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر قاضی رضا علی بلوچ، راشد بلوچ، یونس بلوچ اور ریاض بلوچ نے آکر اظہار یکجہتی کی-

اس موقع پر تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قومی جدوجہد کی خاطر قربانی سمجھ کر بلوچ سپوت بڑی بہادری سے ریاستی جبر کا مقابلہ کرتے آرہے ہیں بلوچ جبری لاپتہ افراد کے معاملے میں پالیسی سازی فیصلے کا اختیار دراصل پاکستانی فوج یا مقتدرہ اداروں کے پاس ہے، جب کہ کھٹ پتلی جمہوری حکومت ربڑ اسٹیمپ ہیں، پارلیمانی اسمبلیاں اور جعلی منتخب نام نہاد نمائندوں نے بلوچ قومی مسائل کے بابت فوج، خفیہ اداروں کے فیصلوں پالیسی اقدامات کی حمایت دفاع کرنے کے پابند ہیں، حتیٰ کہ بظاہر طاقتور اور سرگرم پاکستانی اعلی عدلیہ کو بھی مقبوضہ بلوچستان میں بے لگام ریاستی دہشتگردی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے میں پر مارنے کی اجازت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں کے مقدمہ میں سپریم کورٹ کی کارروائیوں سے اس بات کا مشاہدہ بخوبی کیا جاسکتا ہے جب معاملے کا اختیار ہی فوج کے پاس ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ فوج تو کوئی فوجی حل ہی ڈھونڈے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ چین اور سعودیہ کو انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے حوالے سے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے اگر وہ پاکستان کی کسی قسم کی فوجی یا اقتصادی مدد کرینگے تو ان کی امداد کو پاکستان بلوچستان کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی کاروائیوں میں بروئے کار لائے گا جس کے باعث نہ صرف بلوچ عوام ان کے خلاف نفرت پیدا ہوگی بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے میں ان کے خلاف بین الاقوامی دباؤ میں بھی اضافہ ہوگا بلوچ قوم جبری گمشدگی کی مسلہ کے حل کے لیے فوجی ذرائع یا الفاظ دیگر طاقت کے بے دریغ استعمال کی پاکستانی ریاست پالیسی اسٹبلشمنٹ کی روایتی استعماری سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے مطابق
کانک ضلع مستونگ سے 5 سال قبل پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے محمد رحیم ولد محمد حسین بازیاب ہوگئے ہیں۔