اُداس، دلگیر،اشکبار ۔ محمد خان داؤد

214

اُداس، دلگیر،اشکبار

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

مُلا نے لطیف کو نہیں پڑھا،اگر مُلا لطیف کو پڑھتا،سنتا،جانتا تو وہ محبت کا مرید بن جاتا ہے، اور محبت کیا ہے؟ سیاہ بال،گہری غزال آنکھیں، ہواؤں میں جھولتے پستان، گلابی گال اور ان گالوں پر بہتا پسینہ۔ محبت! وہ دوشیزہ ہے جو من پر بارش کی طرح برستی ہے، پیروں میں گھنگھروکی طرح بجتی ہے اور من میں خوشبو بن کر لپٹ جاتی ہے،اور دکھ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ مُلا لطیف سے نہ آشنا ہیں اس لیے محبت کو دکھ کے تیز دھار آلے سے زبح کر رہے ہیں۔اور محبت ایران کی گلیوں میں کوما میں جا رہی ہے۔

جن بالوں کو ہواؤں کے ساتھ بادل بن کر اُڑنا تھا۔وہ اسکارف کی زنجیروں میں جکڑے جا رہے ہیں۔جن گالوں کو گلابوں کی ماند کھلنا تھا،جن گالوں پر تتلیوں کو رقص کرنا تھا وہ گال خاک آلود ہو رہے ہیں۔جن جسموں سے خوشبوبہار کی پہلی خوشبو بن کر پھوٹنی تھی وہ جسم لاٹھیوں اور کوڑوں کی زد میں ہے۔وہ پیر جن پیروں کو ہاتھوں میں لیکر چومنا تھا جو پیر ہزاروں سکھیوں،پھدمنیوں کے تھے وہ پوسٹ مارٹم وارڈ میں بے سد پڑے ہیں اور ڈاکٹر ڈر کے مارے کورے کاغذوں پر وہی لکھ رہے ہیں جو انہیں کہا گیا ہے۔شاعروں کی زمیں پر محبت مقتل میں ہے۔

یہ کہاوت تو سنی ہے کہ ”جہاں اچھا شعر سنو تو جان جاؤ وہاں کوئی یسوع مصلوب ہوا ہے!“
پر آج تک ایسی کہاوت نہیں سنی کہ”رات کے آخری پہروں میں کسی گھر سے اندھیرے میں کوئی ماں رو رہی ہو سُلگ رہی ہو تو جان جاؤ وہاں کوئی طاہرہ مقتل کو گئی ہے!“
ہاں ایران کی گلیوں میں کل بھی رات کے آخری پہروں میں اندھیرے گھر میں ماں رو رہی تھی،سُلگ رہی تھی جب بھی طاہرہ مقتل کو گئی تھی اور آج صدیوں بعد بھی کوئی ماں رات کے آخری پہروں میں رو رہی ہے،سُلگ رہی ہے اور آج بھی کوئی طاہرہ مقتل کو گئی ہے
اِس طاہرہ میں اور اُس طاہرہ میں کیا فرق ہے؟
کل بھی محبت کا رنگ تھا،آج بھی محبت کا رنگ ہے
کل بھی اعضاء کو آزادی درکار تھی آج بھی اعضاء کو آزادی درکار ہے
کل بھی خوشبو مقید تھی آج بھی خوشبو قید میں ہے
کل بھی ساز جلائے جا رہے تھے آج بھی سازوں کو آگ میں جھونکا جاتا ہے
کل بھی رقص کے پیر جلائے جا تے تھے آج بھی رقص کے پیر جلائے جا رہے ہیں.
کل بھی آنکھوں پر سیاہ پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور آج بھی تمام آنکھیں اندھی ہیں.
کل بھی تتلیاں حسین جسموں کے دیدار کو ترستی تھیں آج بھی ترستی ہیں.
کل بھی تتلیوں کے رنگوں کو مٹایا جاتا تھا آج بھی تتلیوں کے رنگوں کو مٹایا جا رہا ہے
کل بھی طاہرہ کی ماں اشکبار تھی،آج بھی مہسا امینی کی ماں اشکبار ہے
شاعروں کی دھرتی کل بھی تتلیوں۔رنگوں اور خوشبوؤں کی قاتل تھی
شاعروں کی دھرتی آج بھی رنگوں،تتلیوں اور خوشبوؤں کی قاتل ہے
پر مقتل گاہ میں بھی بارش کب رُکتی ہے؟اور کب پھانسی گھاٹ کے تختوں پر گھاس نہیں اُگتی.
کل ایک طاہرہ تھی آج ایک مہسا امینی ہے یہ قتل بھی ہو جائیں پر بارش تو پھر بھی برسے گی اور پھانسی گھاٹ کے تختوں کے نیچے گھاس پھر بھی اُگا کرے گی
یہ بات نہ تو محمد علی باب کے زمانے میں سمجھے تھے اور نہ اب خمینی کے زمانے میں سجھ رہے ہیں۔یہ بات تیز دھار آلے والے ہاتھ اور وحشی ذہن نہیں سمجھیں گے یہ بات گھنگھرو والے پیر اور رنگوں والے ہاتھ سمجھیں گے،یہ بات اخلاقی پولیس کے نا اہل سپاہیوں کے سمجھنے کی نہیں،یہ بات منبروں پر کھڑے ہوکر محبت کو ہراساں کرنے والوں کی سمجھ میں بھی نہیں آئیگی،یہ بات وہ صدر کیسے سمجھ سکتا ہے جس نے کبھی تتلیوں کے پروں کے رنگ دیکھے ہی نہیں
یہ بات شاعر سمجھ سکتے ہیں،یہ بات رقاص سمجھ سکتے ہیں۔یہ بات آرٹسٹ سمجھ سکتے ہیں۔یہ بات محبت کے فقیر سمجھ سکتے ہیں،یہ بات مزاروں کے مجاور نہیں سمجھ سکتے،اور اس وقت ایران پر مزاروں کے مجاوروں کا قبضہ ہے۔وہ کیا جانے کہ جب مزار پر بیٹھے دو کبوتر محبت میں گُٹر گو ں کرتے ہیں تو بادل برسنے کی کرتے ہیں،ہوائیں چلنے کی کرتی ہیں،اور من ناچنے کو کرتا ہے
یہ بات وہ لوگ نہیں سمجھ پائیں گے جنہوں نے کبھی حسین چہرے پررات کو دن میں ڈھلتے ہوئے اور دن کو رات میں بدلتے نہیں دیکھا،یہ محبت کے منظر ہیں اور ایسے منظر بس وہ لوگ دیکھ پا تے ہیں جو محبت کے فقیر ہو تے ہیں
پر وہ ماں کہاں جائے،جس کی طاہرہ جیسی بیٹی مقتل کو پہنچی
اور کسی نے ایسی کہاوت کا ذکر نہیں کیا کہ
کہ”رات کے آخری پہروں میں کسی گھر سے اندھیرے میں کوئی ماں رو رہی ہو سُلگ رہی ہو تو جان جاؤ وہاں کوئی طاہرہ مقتل کو گئی ہے!“
کاش کوئی تو کہتا!
بس وہ ماں ہے
جو
اُداس ہے،دلگیر ہے اور اشکبار ہے!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں