نوشکی اور پنجگور واقعہ کے بعد عوام کو نشانہ بنایا جارہا ہے – وی بی ایم پی

678

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جنرل سیکرٹری سمی دین بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں بلوچستان سے حالیہ جبری گمشدگیوں اور پنجگور میں طالب علم کے، سیکورٹی فورسز کا بلوچستان کے مختلف علاقوں میں حالیہ کریک ڈاؤن پر صحافیوں کو تفصیلی بریفنگ دی-

کوئٹہ پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ جیسا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ گزشتہ دو دہائیوں سے تواتر کے ساتھ جاری و ساری ہے البتہ ان جبری گمشدگیوں کے سلسلے میں کھبی تیزی تو کھبی کمی  دیکھنے کو ملتی رہی ہے مگر گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ان جبری گمشدگیوں میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جسکا سلسلہ ہنوز جاری ہے-

وی بی ایم پی رہنماء نے کہا کہ گزشتہ دنوں نوشکی اور پنجگور واقعے کے بعد سویلین کو جس طرح سے زیر عتاب لایا جارہا ہے وہ انتہائی تشویشناک عمل ہے جسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اس دوران اب تک درجنوں طلبا کو سیکورٹی فورسز نے گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا ہے جنکو نہ کوئی قانونی رسائی حاصل ہے نہ انکے گھر کے افراد کو پتا ہے کہ انکے پیاروں کو لاپتہ کرکے کہاں رکھا گیا ہے سمی بلوچ کے مطابق ہماری تنظیم نے گراونڈ میں کچھ ایسے ہی کیسز اکھٹے کئے ہیں جو آپ صحافی حضرات کے سامنے رکھ رہے ہیں-

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں سے اب تک بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جس تیزی کے ساتھ فورسز نے بلوچ طلبا کو گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا ہے جس سے نت نئے تشویش ابھر کر سامنے آرہے ہیں اسلام آباد اسلامک یونیورسٹی کے طالب علم احتشام بلوچ جو چھٹیوں کی غرض سے اپنے آبائی گاؤں آیا ہوا تھا اسے 3 فروری کو پنجگور بازار سے فورسز نے گرفتار کرنے کے بعد اسی دن اسکی لاش مسخ کرکے پھینک دی تھی جبکہ پنجگور میں ایک ذہنی معذور شخص کو فورسز نے قتل کرکے لاش پھینک دی تھی-

انہوں بتایا کے اسی روز فورسز نے تجابان سے ایک نوجوان طالب علم الطاف جاڑا کو جبری لاپتہ کرکے 4 فروری کو جعلی مقابلے میں قتل کرکے اسکی لاش ویرانے میں پھینک دی تھی جبکہ کچھ دن بعد پنجگور سے سماجی کارکن اور بزنس مین ملک میران بلوچ سمیت رجب دل، مراد باسط، حسن شبیر، حاجی کریم،مسرور عارف، یحٰی اور رئیس کو فورسز نے گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ کردیا گیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں-

میڈیا کو تفصیلات بتاتے ہوئے وی بی ایم پی رہنماؤ کا کہنا تھا کہ اس دوران فورسز نے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تربت نوشکی سمیت دیگر علاقوں تک پھیلا دیا 8 اور 9 فروری کو تربت سے متعدد افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا گیا تھا جن میں نزیر رحمت، نظام نوروز، رازق بلوچ کی شناخت ہوئی ہے اسی دوران نوشکی سے 6 فروری کو وحید بلوچ، میع  بلوچ، فرید عاصم کو سیکورٹی فورسز نے گرفتاری کے بعد جبری طور پر لاپتہ کرنے کے اطلاعات موصول ہوئی-

خضدار سے ایم فل طالب علم حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی پر میڈیا کو بتایا کے حفیظ بلوچ اپنے چھٹیاں منانے خضدار آئے ہوئے تھیں انہیں حراست میں لیکر لاپتہ کردیا گیا ہے جبکہ کوئٹہ سے مزید دو طالب علم ہارون، اور ندیم کو حراست بعد لاپتہ کردیا گیا ہے-

وی بی ایم پی رہنماؤ کا کہنا تھا کے اس دؤران جبری گمشدگیوں کے کئی واقعات پیش آئے کچھ لاپتہ افراد کی شناخت یوں ہوئی ہے مول جان ولد دربیش، کریم داد ولد محمد عمر، یاسین ولد میاں صمد، پھٹان ولد کہدہ اللہ بخش، شبیر جان، امان اللہ، صمد ولد سخی داد محمد خان، دھنی بخش بگٹی، ان افراد کو مختلف اوقات میں مختلف علاقوں سے رواں ماہ لاپتہ کردیا گیا ہے-

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وی بی ایم پی رہنمں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسن کے وفد کو یقین دلایا تھا کہ تمام لاپتہ افراد کو جلد از جلد بازیاب کیا جائے گا انکی بازیابی اپنی جگہ مگر جس طرح سے بلوچستان کے طول عرض میں لوگوں کو لاپتہ کرکے اس تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے لاپتہ افراد کے حوالے سے ایک اور بحران پیدا کریگی ہم متعلقہ اداروں اور اس ملک کی مقتدرہ سے اپیل کرتے ہیں کہ تمام لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے اگر کسی نے کوئی جرم کا ارتکاب کیا ہے تو انھیں عدالتوں کے زریعے سزا دیں اس طرح لوگوں کو لاپتہ کرکے لواحقین کو ازیت نہ دیں-

انکا کہنا تھا کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے ابھی تک ملکی ادارے اس مسئلے کی حساسیت سے بے خبر ہیں گزشتہ دنوں نوشکی اور پنجگور واقعے کے بعد غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق صرف نوشکی سے سو سے زیادہ افراد لاپتہ کئے گئے ہیں جن میں کثیر تعداد نوجوانوں کی شامل ہے جبکہ حکومتی اداروں کی سنجیدہ کا یہ عالم ہے ایک بل تک لاپتہ افراد کے لیے سینٹ سے اب تک پاس نہیں کروا سکے اگر کسی کو لگتا ہے کہ لوگوں کو جبری گمشدہ کرنا ہی بلوچستان کے مسئلہ کا حل ہے تو انھیں یاد دلانا چاہتے ہیں کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ اہم مسئلہ ہے اسے حل کئے بناء بلوچستان کے مسئلے کا حل ممکن نہیں- رہنماؤں نے اپنے پریس کانفرنس کے آخر میں کہا کہ عام شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال اور انکی جبری گمشدگیاں بلوچستان کے مسائل کو مزید گھمبیر کرتے جارہے ہیں اس پریس کانفرنس ک توسط ہم حکومت وقت ملکی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ گزشتہ دنوں میں جتنے لوگ لاپتہ کردئیے گئے ہیں انھیں فوری طور پر بازیاب کیا جائے اور پہلے سے گمشدہ افراد کی بازیابی بھی یقینی بنایا جائے۔