پنجگور میں اغوا اور قتل و غارت کا عروج پر ہونا انتظامیہ کی وجود پر سوالیہ نشان ہے۔ این ڈی پی

395

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے پنجگور میں بدامنی، قتل و غارت گری اور امن امان کی بڑھتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پورے بلوچستان میں چوری، قتل و غارت گری، جبری گمشدگی، اسٹریٹ کرائم جیسے واقعات کا رونما ہونا روز کا معمول بن چکا ہے لیکن اس وقت پنجگور میں اس قسم کے واقعات دن بدن شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ دن دہاڈے لوگوں کو اغواء کرنے کے بعد قتل کرنا،اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہونا امن امان بحال کرنے والے اداروں،صوبائی حکومت سمیت ضلعی انتظامیہ کی غیر مطمئن کن کارکردگی اور ان کی نااہلی کو عیاں کر رہی ہے۔

ترجمان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 25 جنوری 2022 کو نامعلوم مسلح افراد نے ایک شخص نواز علی کو قتل کر کے سمیر بلوچ اور ضمیر بلوچ کو اغوا کر لیے جن کو 26 جنوری 2022 کو قتل کر کے لاشیں پھینک دیئے گئے، جو کہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات معمول کے ساتھ ہوتے آ رہے ہیں جنکے خلاف اب تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ کچھ دن قبل بھی مسلح گروہ ایک شخص کو اغوا کر کے لے گئے تھے جس پر پنجگور کی عوام اپنی مدد آپ کے تحت اغواء کاروں کے خلاف کاروائی کرکے مغوی شخص کو بازیاب کرایا گیا اور اغوا کار قتل کئے گئے جن پر اداروں کی سرپرستی ہونے کے واضح شواہد موجود تھے۔ اداروں کی سرپرستی ہونے کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ بھی ان کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتی تھی۔جو کہ انتظامیہ کو اغواء کاروں کے طرف جانبداری کو ظاہر کرتی ہے۔اس وقت پنجگور سمیت پورے بلوچستان میں اغوا کاری، قتل و غارت گری، چوری ڈکیتی سمیت اسٹریٹ کرائم جیسے واقعات میں اکثر وہ لوگ ملوث پائے جاتے ہیں جن کی پشت پر ریاستی اداروں کی سرپرستی کے شوائد ملتے آ رہے ہیں۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ریاست اور ریاستی ادارے اس وقت بلوچستان کو ایک کالونی کے طور پر چلا رہے ہیں۔اسی لیے بلوچستان کے اندر جو بھی واقعات رونما ہو رہے ہیں یا تو یہ خود ملوث ہوتے ہیں یا پھر ہمیشہ جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں، اسی لیے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بلوچستان کے باسی کس خوف کے سائے تلے جی رہے ہیں۔