بحث نہیں عمل – برانز بلوچ

243

بحث نہیں عمل

تحریر: برانز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تاریخ گواہ ہے جب تک کسی قوم نے اپنا بنیادی مسئلہ یعنی غلامی کے مرض کیلئے عملی اقدامات نہیں کئے یا شعوری فیصلہ نہیں کیا تو آنے والے دنوں میں جو تاریخ کے ضفحے لکھے جائیں گے، وہ بلوچ قوم کیلئے شرمندگی کا باعث ہونگے.

غلامانہ سماج اور غلامانہ روئیے جو ہمیشہ وقت اور حالات کی پیداوار اور کیفیت سے متاثر ہوکر جذباتی پن کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو اصل مرض یا امراض سے بے خبر رہتے ہیں.

نوآبادیاتی نظام یا نوآبادیاتی تعلیمی نظام استحصال زدگان کی سوچ کو مفلوج بنا کر اپنی قبضہ گیریت کو دوام بخشتی ہے. جو اصل مسئلہ ہے اُس کے حوالے سے بے خبر رہتے ہیں۔ نعرے اور بحث بازی سے کسی بھی معاشرتی یا قومی مسئلے یا بیماریوں کا علاج ناممکن.

جس بيماری کو علاج کرنے کيلے ہسپتال اور ڈاکٹر مکرر کئے گئے ہيں کيا واقعی ہسپتال اور ڈاکٹروں کو زیادہ کرنے سے بيماریوں کا علاج ممکن ہے؟ کسی بيماری کے بارے ميں ضحيح معلومات اور ادراک کئے بغير علاج ممکن ہے ؟

ہمارے معاشرے اور لوگوں کا یہی حال ہے ہم بيماری کے علاج کیلئے مختلف ہسپتال اور ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہيں ليکن اصل مسئلے اور بيماری جہاں سے جنم لے رہے ہيں اور جس چيز کی وجہ سے بيماری پائی جاتی ہے ہم اُس مسئلے کے حل اور اس کے مکمل خاتمے کيلے کام نہيں کرتے ۔

ہر مسئلے کے حل کیلئے جب تک مکمل معلومات نہ ہو اور مسئلے کا جب تک بنيادی وجہ معلوم نہ ہو کسی بھی مسئلے کا حل نامکمن ہے ۔

بيماری کا اُس وقت تک خاتمہ نامکمن ہے جب تک جہاں سے اور جس جگہ سے بيماری پيدا ہورہی ہے اُس جگہ اور مسئلے کا مکمل خاتمہ نہ کيا جائے تب تک بيماریوں کا علاج نہ گزیر ہے ہسپتال اور ڈاکٹروں کو زیادہ کرنے کا کوئی مقصد نہيں بچتا ۔

حاليہ دنوں ميں کچھ واقعات ایسے وقوع پزیر ہوئے تھے جيسے کہ برمش کا مسئلہ ، حيات بلوچ کا مسئلہ ، جس کے بعد لوگوں نے بڑی جوش اور شور کا مظاہرہ کيا پر وقت گزرنے کے ساتھ جزباتی پن ٹھنڈا ہوتا گیا ، ساجد حسين کے منظر لانے کیلئے نعرے بازی ، گالی گلوج شروع ہوئی پر وقت گزرنے کے ساتھ خاموشی ۔

جب تک ہم خاموش رہیں گے آواز نہيں اٹھائیں گے تب تک ایسے کئی بانک کریمہ ،ساجد حسيںن اور ملک ناز مرتے رہيں گے ۔ جب تک ہم کسی کی شہادت کے بغير یا لاپتہ کئے جانے سے پہلے اپنی آواز کو بلند نہ کریں،تب تک ہم مرتے رہیں گے ۔

کيا واقعی فيسبک پر بيٹھ کر پوسٹ کرنا یا شہيدوں کے فوٹو شير کرنے سے ہم اپنا قومی فریضہ نبھا رہے ہيں ؟ جب کسی بانک کریمہ کی شہادت ہوتی ہے تب ہم بلوچ ہوتے ہيں دو ،تين دن تک روڑوں پر نعرے لگا کر بيٹھ جاتے ہيں ۔ کيا ہماری ذمہ داری یہیں تک ہے ؟ کيا ہم اپنا قومی ذمہ داری نبھا رہے ہيں ؟ کيا ہم بلوچ قوم کی تاریخ کے ساتھ ناانصافی نہيں کر رہے ہيں ؟

کيا ہم قومی بقا کی تحریک کے جو ضروریات اور تقاضات ہيں ُان پر پورا اُتررہے ہيں ؟ کيا ہم اپنا قومی ذمہ داری نبھا رہے ہيں ؟ ایک دن بی ایس او کے سرکل ميں کسی دوست نے کہا تھا کہ ہم صرف پانچ منٹ کے انقلابی ہيں۔ یہ بات مجھے آج تک یاد ہے ۔ آج ميں اس بات پر اتفاق کرتا ہوں حالات ، واقعات اور جب کوئی شہادت ہوتی ہے تو ہم جزباتی ہوتے ہيں نعرہ لگاتے ہيں فيسبک ، ٹویٹر ، انسٹيگرام اور وٹس ایپ گروپوں ميں پوسٹ اور فوٹو شير کرتے ہيں ۔ ایسا لگنے لگتا ہے کہ اب لوگوں ميں شعور آچکا ہے، اس بار وہ یہ کبھی نہيں بھولیں گے، جب دن گزر جاتے ہيں پھر وہی پرانے حالات کی طرح خاموشی جيسے کچھ نہيں ہوا ہے اور نہ کچھ ہورہا ہے ۔

سب کچھ بھول جاتے ہيں، بات وہی پانچ منٹ والی ہو جاتی ہے ” رات گئی بات گئی سمجھو ” جب ہم کسی سرکل ميں بيٹھتے تو بلوچستان کی موجودہ حالات بلوچ قوم کی نسل کشی جيسے سنگين مسائل پر بات چيت ہوتی رہتی اور شہيدوں کے مقصد کو آگے بڑھانے اور آنے والے حالات کی سنگينی بھانپ کر ہم یہ قسم ليتے تھے کہ ہم ضرور
اپنا قومی فریضہ نبھائیں گے۔ سرکل کے دوران ایسا لگتا تھا کہ ہم سب بہت انقلابی ہيں ، جب سرکل ختم ہوتی تو ایسا لگتا تھا کچھ نہيں ہوا ہے۔ سب کچھ بھول کر پھر وہی عام زندگی۔ اپنی روز مرہ کے کام ليکن خود کو ضرور مطمين کرتے رہتے تھے کہ ہم کچھ نہ کچھ کر رہے ہيں۔

اب فيصلے کی گھڑی ہے، اگر اس بار ہم نے اپنے راستوں کا تعين نہيں کيا تو تاریخ کے صفحے ہمارے لئے شرم سار ہونگی تاریخ ہميں کھبی نہيں بخشے گا خود کو دھوکہ دینے یا مطمين کرنے سے بہتر ہے کہ ہم عملی میدان ميں اتر کر قومی اور تحریک کی ضروریات پر پورا اُترنے کی کوشش کریں ۔

بحث بازی یا نعرہ لگانے سے قومی یا معاشرتی مسئلوں کا حل نا ممکن ہے اس لئے اب شعوری حوالے سے اپنی قومی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا اور تحریک کی تقاضات کے مطابق چلنا ہوگا. اس لے اب بحث نہیں عمل .


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں