پانیوں کے درمیاں، پانیوں کے بیچ – محمد خان داؤد

97

پانیوں کے درمیاں، پانیوں کے بیچ

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

منصور کے شہید ہونے پر دجلہ میں، دجلہ کے آس پاس لہو کے بعدراکھ کی خوشبو تھی
سر بلند کے شہید ہونے پر گوادر میں اور گوادر کے آس پاس لہو کے بعد بارود کی مہک تھی
لہو بُرد بارود
بارود بُرد لہو!
جب دجلہ کا سورج غروب ہو رہا تھا تو اپنے ماتھ پر منصوری راکھ سجائے جا رہا تھا
جب گوادر کا سورج غروب ہو رہا تھا تو اپنے ماتھے پر سر بلندی لہو رنگ سجائے جا رہا تھا
لہو رنگ سُرخ!سُرخ رنگ لہو لہو!
منصور کی مرضی بھلے شہادت میں شامل ہو،بھلے وہ اناالحق کا شیدائی ہو،پر تاریخ گواہ ہے کہ وہ پابند سلاسل تھا،اسے دجلہ کی گلیوں میں گھسیٹا گیا تھا۔اس زنجیروں سے جکڑا گیا تھا۔بھلے پھانسی گھاٹ پر گھاس اُگ آئی ہو،پر اسے پھانسی گھاٹ پر مصلوب کیا گیا تھااور پھر بزور شمشیر اس کے بازو کاٹے گئے،منصور لہو لہو ہوا اور راکھ بن کر دجلہ کے کنارے بکھر گیااور دجلہ کی فضا منصوری راکھ سے اداس ہوگئی۔

پر وہ خود دلہے کی ماند آیا! دھرتی کا گیت گایادھرتی کی محبت میں بارود بن کر گوادر کی فضاؤں میں بکھر گیا!
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سر بلند اناالحق کے نعرے کے موجد سے عظیم ہے!
میں تو بس یہ کہہ رہا ہوں کہ دلہا دھرتی پر کیسے قربان ہو جا تے ہیں
جب کہ منصور وں کی باتیں زمانہ نہیں سمجھ پاتا اور وہ یسوع کی ماند مصلوب ہو کر راکھ بن کر خاک بن کر فضا میں بکھر جا تے ہیں۔میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ منصوری موت کم تر ہے۔میں تو بس یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ دلہا جو محبت کے بوسے لیں وہ کیسے آگے بڑھ کر دھرتی سے بغلگیر ہو جا تے ہیں اور
دھرتی ہی ان کی
ماں
محبوبہ
اور محبت بن جا تی ہے!
اب جو گوادر میں نمکین ہوائیں چل رہی ہیں وہ بس نمکین ہوائیں نہیں۔وہ سرخ لہوں سے بھری سُرخ گلاب جیسی ہوائیں ہیں ایسی ہوائیں کہ جو ہوائیں کنواری لڑکیوں کو چھو جائیں تو ان کے رحم تک جائیں اور وہ حاملہ ہو جائیں۔وہ ہوائیں ایسی کہ اداس مانگوں میں سے گزریں تو ان میں سندور بھر جائیں۔
وہ ہوائیں ایسی کہ جس کو چھو جائیں اس کے من کو محبت سے بھر جائیں
وہ ہوائیں ایسی کہ اداس بدنوں میں خوشبو بھر جائے
وہ ہوائیں ایسی کہ ڈوبتی آنکھوں میں روشنی بھر جائے
وہ ہوائیں ایسی کہ محبت آپ تڑپے محبت سے ملن کے لیے
وہ ہوائیں ایسی کہ سارا آکاش یہ آرزو کرے کہ وہ گوادر کا آکاش کیوں نہیں.
وہ ہوائی ایسی کہ سارا آسماں گوادر میں سمٹ آئے
وہ ہوائیں ایسی کہ دھرتی میں ساز بھر دے سُر بھر دے
اور دھرتی گیت بن کر جھوم اُٹھے
وہ ہوائیں ایسی کہ آسماں کے سب تارے گوادر کے نمکین ساحل پر اتر آئیں
وہ ہوائیں ایسی کہ محبت عیب نہیں پر اعزاز بن جائے!
وہ ہوائیں ایسی کہ جب ساحل کنارے چلیں تو محبت سے بھرے گالوں کو اور گلابی کر جائے
وہ ہوائیں ایسی کہ جس کو دھرتی جھک کر سلام کرے!
وہ ہوائیں ایسی کہ ماؤں کی دلوں میں ایسی حسرت پیدا ہو کہ
”وہ سر بلند جیسے بیٹے جنے!“
تو اب کی بار گوادر کی نمکین ہواؤں میں بس نمک نہیں
پر اب ان ہواؤں میں دیش کے سب سے معصوم اور چھوٹے عاشق کا لہو بھی شامل ہے
جس سے نے دیش کو خاص کر گوادر کے سمندر اور ساحل کو لہو پیش کیا اور پورا سمندر اور ساحل دئیا بن کر جل اُٹھے!
بھلے منصوری راکھ عظیم ہو اور دجلہ رویا ہو
پر سربلندی لہو بھی عظیم ہے اور گوادر رویا نہیں
پر معصوم مسکراہٹ لبوں پر لاکر اپنے معصوم بکھرے بچے کو سمیٹا ہے جو گوادر کے ساحل کنارے دھرتی کے عشق میں لہو لہو۔لہو لہو کیا پر لہو لہو زرہ زرہ بن کر بکھر گیا جاتے سورج نے رک کر دیکھا اور ڈوبنے سے پہلے آخری سلام کر کے اپنے ماتھے کو سربلندی لہو سے رنگ کر ساحلی شہر کے بلند پہاڑوں کی اُوٹ میں چھپ گیا۔جسے بلند و بالا پہاڑوں نے سلام پیش کیا اور اپنے مضبوط سر،سر بلند کے قدموں میں رکھ دیے
چاند نے ماتم نہیں کیا،اس رات چاند پو ری رات ساحل پر ٹھہر کر لطیف کا سُر کیڈارو پڑھتا رہا جو جنگ کے میدان میں حُریتوں کے لیے پڑھا جاتا ہے۔؎
چاند روشن رہا
اور روشن رہا
اور روشن رہا
اور گوادر کا ساحل لہو لہو رہا
اور گوادر کا سمندر لہو رنگ سے بھر گیا!
سر بلندی کا دھرتی سے عشق اس قدر بلند ہے کہ نہ تو اسے دھرتی میں دفن کیا گیا
نہ تو اسے مصلوب یسوع کی ماند آسماں پر بلایا گیا
نہ تو اسے نمکین پانی سے اپنے ساتھ رکھا
پر وہ خوشبو بن کر ہواؤں میں بکھر گیا اور آج وہ خوشبو ہر جگہ موجود ہے
وہ ساحل پر مہک بن کر ٹھہر گیا ہے
وہ پانی کو اپنے رنگ میں رنگ کر لہو لہو کر گیا ہے
وہ فضاؤں میں خوشبو بن کر پھیل گیا ہے
وہ مندروں میں دئیا بن کر جل رہا ہے
وہ سرخ رو سورج بھی ہے
وہ روشن چاند بھی ہے
وہ ماہ تمام ہے!
وہ ہواؤں میں شامل ہے
اور جب وہ ہوائیں کنواری لڑکیوں کو چھو کر گزرتی ہیں
تو وہ حاملہ ہو جا تی ہیں
کیوں کہ ان ہواؤں میں سر بلند کی خوشبو شامل ہے
جو دیس کا دلہا تھا
اور دیس پر قربان ہوا
یہ سب کہاں ہوا؟
پانیوں کے درمیاں
پانیوں کے بیچ
اور پورا آسماں
سب ستارے
اور پورا چاند
وہاں ٹھہر گئے ہیں
جہاں دھرتی کا دلہا
ہواؤں میں بکھر گیا تھا!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں