کوئٹہ لاپتہ افراد بازیابی کیلئے احتجاجی کیمپ جاری

103

بلوچ لاپتہ افراد کا کیمپ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 4392 دن جاری، اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر رہنماء ثناء بلوچ، سی سی ممبر محب شاہ و دیگر شامل تھے۔

کیمپ آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بولان جھالاوان ساروان سمیت مکران و چاغی میں پاکستانی فورسز کے جانب سے شدید نوعیت کے آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے اس آپریشن کے دوران عام آبادی پر تشدد گھروں میں لوٹ مار و گھروں کو مسمار کیا گیا اور درجنوں افراد کو گرفتاری بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

ماما قدیر بلوچ کے مطابق مختلف علاقوں میں ہونے والے آپریشنوں میں متعدد افراد پر تشدد کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے، تشدد کے باعث لوگوں کے جانی نقصانات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان آپریشنوں کے خلاف متعدد بلوچ حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے کو ملا ہے بلوچوں پر ڈھائی جانے والی ریاستی ظلم انسانی حقوق کی پامالیوں سے لیکر گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں کی ظلم ڈھائی گئی۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ حالیہ آپریشنوں میں جن بلوچوں کو شہید کیا گیا ان کی اس قربانی نے نہ صرف بلوچ قوم کے دلوں اور تاریخ انکا باوقار و عمل نے اعلیٰ مقام پیدا کیا ہے اور پر امن لاپتہ افراد کے تحریک کو مزید جلا بخشی ہے بلکہ دنیا کے سامنے بالادست حکمران قوتوں نوآبادیات پالسی کو مزید بے نقاب کردیا ہے۔ بلوچ اپنے ان شہداء کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کرتی رہیگی۔

وفد سے گفتگو کرتے ہوئے ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ استعمار قوتوں نے ایسے ہی ایک پشتون قوم پرست رہنماء عثمان کاکڑ کو اس لئے شہید کردیا کہ عثمان کاکڑ پشتون بلوچ سمیت پاکستان ظلم کے شکار دیگر اقوام کے لئے ایک توانا آواز تھا، بلوچ عثمان لالا کے اس جہدو جہد کو کبھی فراموش نہیں کریگی۔