ضیاء ایک صبح نو کی ضیاء – برزکوہی

878

ضیاء ایک صبح نو کی ضیاء

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

شور کے سینے سمسوک پر سجے ہوئے چار سوفٹ کے بلند و بالا یخ بستہ پہاڑی پر پوری رات سردی میں وطن کے تین محافظ پہرہ دے رہے تھے۔ اپریل کا موسم بھی یہاں عجیب ہوتا ہے، پورا دن موسم خوشگوار رہتا ہے، کبھی کبھی ہلکی گرمی بھی پڑتی ہے، ہوائیں اپنے ساتھ نئے کھلنے والے گواڑخوں کا خوشبو ہر جھونکے کے ساتھ لے آتی ہیں، گھونسلوں میں چھپ کر سردیاں بتانے والے پرندے بھی اب گھونسلوں سے نکل کر اڑان بھرتے نظر آتے ہیں۔ درختوں پر نئے ہرے پتے پہاڑوں کے خاکی منظر میں ایک نئی منفرد جاذب نظری پیدا کردیتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی شام کو سورج اپنا چہرہ چھپادیتا ہے تو گمان ہوتا ہے کہ دسمبر کی ٹھٹھراتی سردی ابھی تک چُھٹی نہیں۔ اسی ٹھٹھراتی سردی میں نگرانی کرتے ساتھی، مشرق کی جانب افق پر نظریں گاڑھے سورج کے نکلنے کا انتظار میں تھے کہ صبح صادق 5 بج کر 46 منٹ پر “گھاٹ کمانڈر” نورا نے وائرلیس پر کیمپ کمانڈر کو اطلاع دی کہ دشمن کے 7 ہیلی کاپٹر مشرق کی طرف سے، 4 شمال کی جانب سے، 5 جنوب مشرق کی طرف سے اور 3 جنوب کی جانب سے پرواز کرتے ہوئے کیمپ کی جانب آرہے ہیں اور ایک جاسوسی طیارہ عین کیمپ کے قریب پہنچ چکا ہے۔ کیمپ میں موجود 51 دوستوں پر مشتمل گوریلا دستے نے ایک دم برق رفتاری سے چھوٹی ٹکڑیوں میں منتشر ہوکر، کیمپ کے آس پاس کے چوٹیوں پر مورچہ زن ہوگئے۔

کہیں سے ایک ساتھی سرمچار کی آواز آئی “دلو، او دلو! داغو راکٹ بے غیرتوں کے زرد ہیلی کاپٹر پر “بھگدڑ کی عالم میں، نیند سے بیدار ہوئے، لمبے، گھنے، بکھرے ہوئے بالوں، خاکی چادر سر پر باندھے ہوئے دلو (ضیا) نے راکٹ کو کندھے پر رکھ کر اوپر پرواز بھرتے چار ہیلی کاپٹروں میں سے ایک پر نشانہ باندھنا شروع کردیا۔ ان چار ہیلی کاپٹروں میں سے دو گن شپ ہیلی کاپٹر اور دو bell 412 تھے۔

اسی وقت کیمپ کمانڈر نے دلو کو انتظار کرنے کا کہتے ہوئے رکنے کا اشارہ کیا “یہاں سے ہیلی کاپٹر کو مارنے سے، دوستوں کا لوکیشن ظاہر ہوگا اور دوستوں کی جان خطرے میں پڑسکتا ہے۔”

کمانڈر کی ہدایت سننے کے بعد دلو انتہائی پھرتی سے پیش قدمی کرتے ہوئے، تھوڑی دور واقع دوسری چوٹی پر چڑھتا ہے، اور خود کو کیموفلاج کرکے، راکٹ لانچر کندھے پر مستعد کرکے، ہیلی کاپٹروں کے پلٹنے کا انتظار کرتا ہے، تاکہ یہاں سے ہیلی کاپٹر کو مارنے سے باقی پندرہ دوست جو کمانڈر کے ساتھ ہیں، انہیں نقصان سے بچا سکے اور اپنی جان خطرے میں تنہا ڈال کر دشمن پر ایک کاری ضرب لگاکر اسکے فضائیہ کو پسپا ہونے پر مجبور کرسکے۔

سارے دوست گوریلا حکمت کے تحت پھرتی کے ساتھ اپنے اپنے پوزیشن بدلتے رہے اور آگے بڑھتے رہے۔ دشمن جو فضائی مدد کے ساتھ ساتھ انتہائی بھاری تعداد میں ایس ایس جی کمانڈوز چاروں اطراف اتارا ہوا تھا، دشمن کے بری دستے بھی کیمپ کی جانب اپنی پیش قدمی تیز کرتے رہے۔ دشمن کا منصوبہ واضح تھا، وہ چاروں طرف سے سینکڑوں کمانڈووں کی مدد سے گھیر کر، آھستہ آھستہ گھیرا تنگ کرنا چاہتا تھا، اور دشمن فضائیہ اوپر سے سرمچاروں پر آتش و آہن برسا کر سرمچاروں کو مفلوج رکھنا چاہتا تھا تاکہ سرمچار گھیرا نا توڑ سکیں۔

چار گن شپ ہیلی کاپٹروں سمیت، بارہ مختلف ہیلی کاپٹروں کے ساتھ 2 جاسوس طیارے، سمسوک کو اپنے بربریت کے آغوش میں لیئے ہوئے تھے، ہر طرف دھماکوں کی آواز اور گڑگڑاہٹ تھی، راکٹوں، پٹہ مشینوں کی تھرتھراہٹ تھی، ہر طرف دھول، دہواں اور بارود کی تیز بو پھیلی ہوئی تھی۔

بارود کی اس تیز بو، دھویں اور سر پر ناچتے دشمن اور آتش اگلتے دشمن کی فضائی حملے کے دوران، اچانک ایک پہاڑی چوٹی سے، ایک راکٹ کا گولہ فائر ہوا، جو سیدھا دشمن کے ایک ہیلی کاپٹر کو لگا، جس میں آگ بھڑک اٹھی، پھر آسمان پر سب ساتھیوں کو ایک ہیلی کاپٹر بے ہنگم منڈلاتے اور پیچھے دھویں کی ایک لمبی لکیر چھوڑتے، قلات کی جانب پسپا ہوکر جاتے نظر آنے لگا، صرف چند منٹوں میں ہی وہ باقی ہیلی کاپٹروں سے الگ ہوکر کوہ ہپڑوسی سے ہوکر قلات مین آرسی ڈی سڑک کے قریب گرکرتباہ ہوگیا۔

ایک ہیلی کاپٹر کو گرتے دیکھ کر دشمن کی باقی ہیلی کاپٹر خوفزدہ ہوکر اپنی پروازیں اونچی کرگئیں، اور دوبارہ نیچی پروازوں سے کتراتے رہے، یوں کئی مقامات پر گھیرے میں پھنسے ساتھی سرمچاروں کو موقع مل گیا کہ وہ دشمن کا گھیرا توڑکر نکلنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اس ایک راکٹ نے دشمن کے مہینوں سے ترتیب دیئے گئے ایک بڑے حملے کو پسپا کردیا اور جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور وہ راکٹ فائر کرنے والا دلو تھا۔ ہمارا دلو عرف دلجان عرف ضیا اسی دن سے اپنے سینے پر ٹک تیر کا اعزاز سجانے میں کامیاب ہوا۔

ضیاالرحمان عرف دلجان کو بی ایل اے نے رسمی طور پر ٹِک تیر کا خطاب دے دیا۔ یوں بلوچ قومی مزاحمتی تحریک کی اس طویل تاریخ میں اپنی زندگی میں ہی کوئی قومی خطاب و اعزاز حاصل کرنے والے وہ پہلے سرمچار بن گئے۔

یہ 7 اپریل 2014 کا دن تھا، اس دن یہ واحد تاریخی کارنامہ نہیں تھا بلکہ ایک طرف جہاں دلو بہادری وجانثاری کی نئی تاریخ رقم کرکے ٹیک تیر کا خطاب اپنے نام کررہا تھا، اسی میدان جنگ میں، اسی دن شہید امیرالملک “آخری گولی” کے فلسفے کا بیج بونے جارہا تھا۔ ایک طرف دلو اپنے “ٹِک” نشانے سے دشمن کے فضائیہ کو پسپا ہونے پر مجبور کررہا تھا، دوسری طرف شہید امیرالملک ایک دستے کی کمان کرتے ہوئے، دشمن کے اعلیٰ تربیت یافتہ ایس ایس جی کمانڈوز کو ناکوں چنے چبوا کر انکا گھیرا توڑکر، اپنے کئی ساتھیوں کو بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔

دشمن کا گھیرا توڑتے اور باقی ساتھیوں کیلئے محفوظ راستہ بناتے بناتے شہید امیرالملک اپنے دو جانباز ساتھیوں شہید صمد زہری عرف شیرا اور شہید گزین کے ساتھ ملکر سمسوک کے ایک گھٹ میں مزاحمت کی ایک تاریخ رقم کرکے دشمن کی لاشیں بچھاچکا تھا۔ جسکی وجہ سے دشمن نے اپنے تمام کمانڈوز کا رخ انکی جانب کردیا تھا۔ ایک طرف باقی دوستوں کو اس مزاحمت کیوجہ سے نکلنے کا موقع مل گیا لیکن یہ تینوں جانثار گھیرے میں آگئے تھے، لیکن یہ سرمچار آخری دم تک مقابلہ کرتے رہے۔ اپنے باقی دونوں ساتھیوں کی شہادت اور گولیاں ختم ہونے کے بعد شہید امیرالملک نے یہاں وہ تاریخی فیصلہ لیا، جو ” آخری گولی کے فلسفے” کی صورت میں آج سات سال بعد بھی دشمن کیلئے ایک واضح پیغام ہے کہ بلوچ کیلئے آزادی اور موت کے بیچ اور کوئی درمیانہ راستہ قابل قبول نہیں۔

شہید امیرالملک قلندرانی عرف جمال نے سالوں سے اپنے جیب میں الگ رکھے گولی کو بندوق کے چیمبر میں لوڈ کرکے گولی اپنی حلق میں اتار دی۔

7 اپریل 2014 کو اس پہاڑی چوٹی پر اکیلے دلجان چڑھا تھا، لیکن وہاں سے وہ اکیلے نہیں اترا تھا۔ بلکہ اترنے والا ایک ہی وقت میں، پرانا دلو، ٹِک تیر اور امیر بھی تھا۔ اس دن کے بعد سے دلجان ناصرف اپنی ساری ذمہ داریاں نبھاتا رہا بلکہ اس نے اپنے سَر شہید امیرالملک کی ذمہ داریاں بھی لےلیں۔ اس نے اپنے سَر صرف امیر کی ذمہ داریاں ہی نہیں اٹھائیں بلکہ اسکی روایت بھی اسکے لاش کو کندھا دیتے اٹھالی، دلو نے امیر کی طرح اسی دن، ایک گولی الگ کرکے اپنے جیب میں رکھ لی۔

پھر یہی ذمہ داریاں اسے شور سے ناگاہو، ناگاہو سے بولان اور بولان سے تراسانی لے گئے۔

19 فروری 2018 کو دلجان کو ذمہ داریوں کا یہ بار اپنے ساتھی بارگ جان کے ساتھ تراسانی زہری لے آتی ہیں۔ وہ زہری جس نے اسے خوبصورتی کے معنی بتائے، مزاحمت کی معنی سِکھائی، عشق کے سبق پڑھائے اور غلامی کے تپش کی لمس بھی محسوس کرائے۔ آج وہی زہری تمام پڑھائے اسباق اور سکھائے عشق کا اس سے امتحان لینے والا تھا۔ دلو اور بارگ دشمن کے گھیرے میں آگئے تھے، بارگ کی بندوق کرائے کے سپاہیوں پر گرج رہی تھی اور اور ٹِک تیر کے تِیر دشمن کے پرخچے اڑاتے جارہے تھے۔ وہ مزاحمت کے کسوٹی پر پورے اترے، اب پیاسی دھرتی کو عشق کا امتحان لینا تھا۔ دونوں کی گولیاں ختم ہوگئیں۔ بندوقیں خالی لیکن جیب خالی نہیں، جنون خالی نہیں، عشق خالی نہیں۔ آخری گولی کا فلسفہ اور دونوں کے حق سے گولی پار ہوئی۔ دلجان اور بارگ، امیر کے پاس چلے گئے اور دشمن کے ہاتھوں محض ٹھنڈے جسم ہی لگے۔

ایک رمانی کہاوت ہے کہ شہیدوں کے جسم پر شہادت کے وقت جو زخم لگتے ہیں وہ اگلی زندگی میں واضح سیاہ تِل بن کر ابھر کر انہیں ممتاز کرتے ہیں۔ دلجان جیسے ہی امیر سے ملا ہوگا، اپنے حلق پر بنے نئے سیاہ تِل کو دِکھاتے ہوئے بولا ہوگا کہ “دیکھ یار! تجھ کو تنہا نہیں چھوڑا، اور نا ہی مجھے تنہا چھوڑا جائے گا، نا تیرا رستہ ویران رہا اور نا ہی میرا رستہ ویران رہے گا۔”


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں