خط – سمیرہ بلوچ

231

خط

تحریر: سمیرہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

چلیں یہ طے کرتے ہیں کے تم اپنی محبت میرے نام کردو اور ہم دونوں اپنی محبت وطن کے نام کرتے ہیں فیصلہ یہ ہوجائے کے تمھاری محبت میری ہوگی ہماری محبت سرزمین کی اور پھر میں تمھارے محبت میں سرزمین کی محبت سے واقف ہوجاوں یہ طے کرتے ہیں کہ ہماری محبت سرزمین کے لئے ہوگی _

وقت اور حالات تمھیں مجھ سے اکثر دور رکھے ہوئے ہیں لیکن یہ بھی تو سچ ہے جو ہم دونوں نے طے کیا تھا، تم اسی سے جڑے ہوئے ہو اپنی سرزمین کی جنگ لڑنے پہاڑوں کے دامن میں بسیرا کرکے اپنے قوم کے مستقبل کی روشنی کے لئے اپنا آج قربان کررہے ہو اور محبت تو قربانی دینے کا نام ہے۔

تم نے سرزمین کی محبت میں اپنی جان کی قربانی دی اور میں نے ہم دونوں کی محبت میں تمھاری قربانی دی اس سے بڑھ کر محبت میں اور کیا تحفہ دیا جاسکتا ہے لیکن میں مطمئن ہوں کے تم نے جس محبت سے وعدہ کیا تھا اس وعدے سے وفا کر گئے۔

تمھارے لکھے خط موجود ہیں وہ آخری خط بھی جسے میں نے نہیں پڑھا۔ میں نے وہ خط کھولا ہی نہیں جو تمھارے شہادت کے بعد مجھے موصول ہوئی میں تمھارے آخری الفاظ سے انجان رہ کر تمھاری یادوں کے ساتھ تمھاری موجودگی کو محسوس کرکے باقی زندگی بسر کرنا چاھتی ہوں وہ خط مجھے تمھارے میرے ساتھ بقایا زندگی کے گفتگو کی ہمسفر ہے۔

میں اس خط کو کھول کر پڑھ کر اپنی اور آپ کے بیچ گفتگو کو اختتام نہیں کرنا چاہتی اس خط میں میرے لئے ہزاروں الفاظ محبت کے لکھے ہونگے جنھیں میں روز سوچ کر تم سے محو گفتگو رہتا ہوں اور کافی دیر تک میری آپ کے ساتھ گفتگو ہوتی رہتی ہے اور پھر اسے سلیقے سے محفوظ کر لیتا ہوں-

تمھارے شہادت کے دن ہر سال میں یہی کوشش کرتی کے تمھارے بارے میں کچھ بیاں کر سکوں لیکن شاید میرے الفاظ تمھیں الوادع کہنے کو تیار نہیں، تم نے جو سر انجام دیا تمھاری محنت مخلصی الفاظ کے بھی محتاج نہیں رہے اور تمھارے ہم سفر تمھارے سبق عمل کی شکل دے کر اس پر کاربند ہیں۔

بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کے تم کامیاب ہوگئے، بہت کم لوگ اپنے کمٹمنٹ میں کامیاب ہوتے ہیں لیکن ان میں ہی موجود تم جیسے بہادر اور مخلص لوگ کامیابی کو اپنے لئے اپنے خاندان کے لئے قابل فخر بناتے ہیں اور تم نے وہی کیا۔


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں