ہمارا دشمن اخلاقی، انسانی اور بین الاقوامی اصولوں سے ناواقف ہے – جاوید مینگل

697

 

بلوچ رہنماء میر جاوید مینگل نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بانک کریمہ بلوچ کی لاش کو کراچی ائیر پورٹ سے جبری اغواء کرنا اور تمپ میں کرفیو نافذ کرکے بلوچ عوام کو نماز جنازہ میں شرکت سے روکنا انسانی و اسلامی اقدار کے منافی عمل تھا۔

اس طرح کے غیر انسانی عمل کی نظیر کسی مہذب معاشرے میں نہیں ملتی، فلسطین اور کشمیر میں اسرائیل و انڈیا کے افواج بھی اس طرح کا غیر انسانی رویہ لاشوں کیساتھ نہیں اپناتے، جس طرح کا غیر انسانی سلوک پاکستان بلوچوں کیساتھ روا رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنگوں میں دشمن ایک دوسرے کے لاشوں کا احترام کرتے ہیں لیکن ہمارا دشمن اخلاقی، انسانی اور بین الاقوامی اصولوں سے ناواقف ہے۔

جاوید مینگل نے مزید کہا کہ پاکستان کی اس بوکھلاہٹ سے ہمارے خدشات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ بانک کریمہ بلوچ کی قتل میں ریاستی ادارے ملوث ہیں۔

کینیڈین حکومت قتل کی تحقیقات صاف و شفاف انداز سے کرکے حقائق سامنے لائیں اور ذمہ داروں کا تعین کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جبر و طاقت سے نظریہ کو نہیں روکا جاسکتا نہ ہی اس طرح کی حرکتوں سے بلوچ قومی تحریک کو ختم کیا جاسکتا ہے، بلوچستان میں اس سے قبل زندہ انسان محفوظ نہیں تھے، فورسز لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کرتے تھے لیکن اب لاش بھی محفوظ نہیں ہیں۔

کریمہ بلوچ کی لاش کو جبری اغواء کرکے رات کی تاریکی میں دفنانے کی کوشش کی گئی، بانک کریمہ کی نظریہ سے بوکھلاہٹ کے شکار قوتیں ان کی لاش سے جس طرح خوفزدہ ہوگئے تھے یہ بانک کی سیاسی سوچ اور نظریہ کی کامیابی ہے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں کہ کسی لاش کی بے حرمتی کی گئی ہے اس سے قبل نواب اکبر بگٹی کو شہید کرکے ان کی لاش کو خاندان اور بلوچ قوم کے حوالے کرنے کی بجائے تابوت میں مقفل کرکے دفنائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ نواب خیر بخش مری کی لاش کو بھی ریاستی تحویل میں خاندان و بلوچ قوم کے مرضی و منشاء کے بغیر کاہان لے جاکر دفنانے کی کوشش کی گئی۔

ریاستی ادارے سمجھتے ہیں کہ وہ گمنامی میں لاشوں کو دفنا کر ان کی نظریات سے لوگوں کو دور رکھ سکیں گے یہ انکی احمقانہ سوچ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی میں کچھ کاسہ لیسوں نے غلط بیانی کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی کہ لاش کو جبری اغواء نہیں کیا گیا تھا، اور نہ کرفیو نافذ تھا اور نہ ہی لوگوں کو روکا گیا لیکن سوشل میڈیا پر ویڈیوز کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ اپنی تنخواہ کو حلال کرنے کے لئے اس طرح کے بے ہودہ تقاریر کرکے کچھ مخصوص قوتوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ ان کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں، یہ ابن الوقت لوگ قوم و وطن دشمنی کرکے محب الوطن بننے کی سرٹیفکیٹ اور مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

بلوچ سماج میں ایسے موقع پرست لوگوں کی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں۔ جاوید مینگل نے مزید کہا کہ بلوچ خواتین میں قومی شعور و بیداری اس بات کا واضح اظہار ہے کہ ظلم و جبر سے اب مزید بلوچ قوم کو غلام بناکر نہیں رکھا جاسکتا۔

نواب خیر بخش مری اور کریمہ بلوچ کی تدفین کے موقع پر بلوچ خواتین نے جو مزاحمتی کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

بلوچ رہنماء میر جاوید مینگل نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بانک کریمہ بلوچ کی لاش کو کراچی ائیر پورٹ سے جبری اغواء کرنا اور تمپ میں کرفیو نافذ کرکے بلوچ عوام کو نماز جنازہ میں شرکت سے روکنا انسانی و اسلامی اقدار کے منافی عمل تھا۔

اس طرح کے غیر انسانی عمل کی نظیر کسی مہذب معاشرے میں نہیں ملتی، فلسطین اور کشمیر میں اسرائیل و انڈیا کے افواج بھی اس طرح کا غیر انسانی رویہ لاشوں کیساتھ نہیں اپناتے، جس طرح کا غیر انسانی سلوک پاکستان بلوچوں کیساتھ روا رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنگوں میں دشمن ایک دوسرے کے لاشوں کا احترام کرتے ہیں لیکن ہمارا دشمن اخلاقی، انسانی اور بین الاقوامی اصولوں سے ناواقف ہے۔

جاوید مینگل نے مزید کہا کہ پاکستان کی اس بوکھلاہٹ سے ہمارے خدشات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ بانک کریمہ بلوچ کی قتل میں ریاستی ادارے ملوث ہیں۔

کینیڈین حکومت قتل کی تحقیقات صاف و شفاف انداز سے کرکے حقائق سامنے لائیں اور ذمہ داروں کا تعین کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جبر و طاقت سے نظریہ کو نہیں روکا جاسکتا نہ ہی اس طرح کی حرکتوں سے بلوچ قومی تحریک کو ختم کیا جاسکتا ہے، بلوچستان میں اس سے قبل زندہ انسان محفوظ نہیں تھے، فورسز لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کرتے تھے لیکن اب لاش بھی محفوظ نہیں ہیں۔

کریمہ بلوچ کی لاش کو جبری اغواء کرکے رات کی تاریکی میں دفنانے کی کوشش کی گئی، بانک کریمہ کی نظریہ سے بوکھلاہٹ کے شکار قوتیں ان کی لاش سے جس طرح خوفزدہ ہوگئے تھے یہ بانک کی سیاسی سوچ اور نظریہ کی کامیابی ہے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں کہ کسی لاش کی بے حرمتی کی گئی ہے اس سے قبل نواب اکبر بگٹی کو شہید کرکے ان کی لاش کو خاندان اور بلوچ قوم کے حوالے کرنے کی بجائے تابوت میں مقفل کرکے دفنائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ نواب خیر بخش مری کی لاش کو بھی ریاستی تحویل میں خاندان و بلوچ قوم کے مرضی و منشاء کے بغیر کاہان لے جاکر دفنانے کی کوشش کی گئی۔

ریاستی ادارے سمجھتے ہیں کہ وہ گمنامی میں لاشوں کو دفنا کر ان کی نظریات سے لوگوں کو دور رکھ سکیں گے یہ انکی احمقانہ سوچ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی میں کچھ کاسہ لیسوں نے غلط بیانی کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی کہ لاش کو جبری اغواء نہیں کیا گیا تھا، اور نہ کرفیو نافذ تھا اور نہ ہی لوگوں کو روکا گیا لیکن سوشل میڈیا پر ویڈیوز کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ اپنی تنخواہ کو حلال کرنے کے لئے اس طرح کے بے ہودہ تقاریر کرکے کچھ مخصوص قوتوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ ان کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں، یہ ابن الوقت لوگ قوم و وطن دشمنی کرکے محب الوطن بننے کی سرٹیفکیٹ اور مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

بلوچ سماج میں ایسے موقع پرست لوگوں کی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں۔ جاوید مینگل نے مزید کہا کہ بلوچ خواتین میں قومی شعور و بیداری اس بات کا واضح اظہار ہے کہ ظلم و جبر سے اب مزید بلوچ قوم کو غلام بناکر نہیں رکھا جاسکتا۔

نواب خیر بخش مری اور کریمہ بلوچ کی تدفین کے موقع پر بلوچ خواتین نے جو مزاحمتی کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔