میں نے دیکھا وہ رو رہی تھی – محمد خان داؤد

183

میں نے دیکھا وہ رو رہی تھی

 تحریر  : محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جب وہ ٹھیک تھی تو پیسے کی سخت قلت تھی۔
جب وہ بیمار رہنے لگی تو پیسہ وافر ہوگیا۔
اسے دال پسند نہیں تھی اور آئے دن گھر میں دال ہی پکتی۔ مجھ سمیت گھر کے سبھی افراد دال مرغی سمجھ کر کھا جاتے اور وہ دال پکا کر پورا دن، یا پوری رات بھوکی رہتی اور بھوکی ہی سو جاتی۔ جب وہ ٹھیک تھی تو اس کے پیر اکثر و بیشتر ننگے رہتے۔ سخت گرمی میں بھی اور سخت سردی میں بھی۔ جب وہ بیمار رہنے لگی، اسے اپنا ہی ہوش نہ تھا تو میں اس کے لیے شہر کی مارکیٹوں کے سپر اسٹوروں سے کئی جوتے لے آیا۔

پر اب وہ جوتے کس کام کے، سوائے اس کے کہ جب وہ زیادہ یاد آئے تو ان جوتوں میں رسی ڈالے ان کا ہار بنا کر اپنے کاندھے میں ڈالے اس بات پر ماتم کرتا رہوں کہ وہ اس گھر میں کیوں بہائی گئی جہاں اسے کبھی عزت نہیں ملی۔

جب وہ ٹھیک تھی تو اس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے ہو تے۔ میں اسے دیکھتا کہ اس کے پستان نظر آ رہے ہیں۔ پر وہ بھی کیا کرتی کہ اس کی ایک نہیں پر دو بچیاں اب اس کے برابر ہوگئی تھیں تو جو اس کے پاس کپڑے تھے ان کپڑوں سے اس نے ان جوان ہوتی بچیوں کے جسموں کو ڈھک دیا۔
اور خود پرانے پھٹے کپڑوں میں آدھی ننگی آدھی ڈھکی چھپی نظر آتی!
میں اللہ سے کہتا
،،اللہ مجھے جلدی بڑا کردے کوئی کام دے دے میں اسے بہت سے اچھے کپڑے لادوں!،،
اب بہت سے کپڑے تھے پر اسے کچھ خبر نہ تھی
اور اب وہ کپڑے آئے دن میں رات کو پہن کر اس کے بستر پر سو جاتا ہوں
ہاں تو جب وہ ٹھیک تھی تو پیسے کی قلت تھی
اور جب وہ بیمار رہنے لگی تو پیسہ وافر ہو گیا۔

اب وہ پیسہ مجھے روز سانپ بن کر ڈستا ہے اور میں ہوں کہ خاموشی سے اس ڈسنے کو برداشت کر رہا ہوں۔ جب وہ ٹھیک تھی تو راشن کی دکان کا بل بہت زیادہ آجاتا تھا۔ اور اس کے سارے دیور اسے گالیاں دیتے۔ اسے برا بھلا کہتے اور یہ الزام تراشی کرتے کہ،،اس کے بچے بہت ہیں اور وہ زیادہ راشن کھا جاتے ہیں یا یہ کمینی ڈھکے چھپے انداز میں راشن کی دکان سے کچھ منگاتی ہوگی،،

جب بات بڑھ جاتی گھر کے کچھ لوگ مجھے مارتے پیٹتے میرا ہاتھ پکڑکر مجھے گھسیٹتے اس دکان والے کے پاس لے جاتے کیوںکہ میں ہی اس کا بیٹا تھا جو باہر آ جاسکتا تھا، گھر کے مرد مجھے گھسیٹتے لے جاتے اور وہ کسی زخمی ہرنی کی طرح کسی مورنی کی طرح میرے پیچھے بھاگتی، جب تک گھر کا دروازہ بند ہو جاتا اور گھر کے مرد دکان آنے تک مجھے مارتے جا تے، ڈراتے جاتے، دھمکاتے جاتے اور کہتی رہتے کہ اگر اس دکان والے نے کہا کہ تو اس سے کچھ لیتا رہا ہے تو پھر تو اور اس کُتیا کی خیر نہیں۔

میں راستے میں ڈر جاتا کہ اگر دکان والے نے مجھے دیکھ کر کہہ دیا کہ یہ کچھ لیتا رہا ہے تو پھر؟
مجھ پر خوف سے سردی کی لہر دوڑ جاتی اور میں ڈر جاتا کہ یہ میری معصوم امی کو نہیں چھوڑیں گے
وہ مجھے مارتے جا تے میں ان کے ساتھ چلتا رہتا
دل میں دعا کرتا جاتا، یا اللہ اس راستے کو بہت طویل کر دے وہ دکان کبھی نہ آئے
پر راستے ختم ہو جاتے ہیں اور منزلیں نہیں ملتی
وہ راستہ بھی ختم ہوا اور وہ دکان آہی گئی
گھر کے مرد نے دکان دار کو مخاطب ہو کر پوچھا کہ
،،کیا یہ لڑکا تم سے ادھار پر کچھ لیتا رہا ہے؟،،
دکان دار میری حالت کو دیکھتا اور میں دل میں اللہ ہونے نہ ہونے پر سوچتا رہتا
کافی غور کرنے کے بعد دکان دار کہتا
،،نہیں!یہ کون ہے؟آپ کا سودا سلف تو آپ کا بھائی حنیف لے جاتا ہے
اور وہ بدمعاش میرے گریبان سے ہاتھ نکالتے، میں بھاگا بھاگا گھر پر پہنچتا
تو دیکھتا کہ چھ بہنوں،اور ماں سمیت گھر میں اداسی کا ماتم ہوتا اور مجھے دیکھ کر ماں مجھے گلے سے لگا لیتی
اور بچے ہوئے آنسوؤں سے بہت روتی بہت روتی!
پھر بھی وہ بیمار ہوگئی
جب بھی راشن کی دکان کا وہی حشر رہا
میرے دل میں خیال آتا میں اسے یہ بھی کھلاؤں گا۔ وہ بھی کھلاؤں گا، جو میرا دل کرے وہ بھی کھلاؤں گا اور جو امی کا دل کرے گا اسے وہ بھی کھلاؤں گا۔

جب میرے پاس پیسے آگئے تو ایک تو میں اسے کیا کھلاتا، اور وہ کیا کھاتی صبح کا دودھ رکھے رکھے رات کو خراب ہوجاتا اور رات کا دودھ رکھے رکھے صبح کو خراب ہوجاتی۔
وہ بیمار ہو گئی تھی
میری معصوم امی
میری پیا ری امی
میری ان پڑھ امی
میری بے زباں امی

جب میں نے دیکھا کہ اسے کوئی کچھ نہیں دیتا۔ اس کا شوہر بھی اسے کچھ نہیں دیتا تو میں نے سوچا مجھے کوئی کام کرنا چاہیے اور مجھے کچھ نہیں آتا تھا۔ میں خود بہت مشکل اور پریشانی سے انٹر میڈیٹ کے پہلے سال میں داخل ہوا تھا۔ تو مجھے ایک دن میرے دوست نے کہا کہ ہما ری ایک میڈیم ہے اس کی بچی کو سندھی کی کلاس دینی ہے کیا تم دے دو گے؟
میں نے سوچا کہ مجھے کیا آتا ہے؟ میں نے تو کبھی کسی کو الف بھی نہیں پڑھایا۔ پھر ہاں کردی
میٹرک کے امتحانوں میں بس دو ماہ رہ گئے تھے
میں نے اس لڑکی کو دل و جاں سے سندھی کی کلاس پڑھائی۔ گھر میں بھوک، افلاس، گالیاں مار کٹائی گالیاں سب چلتے رہے اور میں ہفتے میں تین روز مغرب کے بعد اس لڑکی کو سندھی کی کلاس پڑھاتا رہا۔
جس دن اس لڑکی کی سندھی کا پیپر تھا۔ پیپر کے دوسرے دن اس لڑکی کی امی نے مجھے آنے کو کہا
میں اس کے گھر گیا تو وہ بہت ہی عزت سے پیش آئی اور کہا کہ میری بچی کا پیپر بہت اچھا ہوا
اور مجھے مٹھائی کا ڈبہ اور آٹھ سو روپے دیے
میں وہ مٹھائی اور آٹھ سو روپئے لیے گھر کی طرف دوڑا اور وہ راستہ بھی طویل ہوتا گیا
میں گھر میں آیا امی کو پوچھا تو وہ باورچی خانے میں روٹیاں پکا رہی تھی۔ گرمی کے دن تھے اور وہ پسینہ پسینہ تھی۔ میں نے مٹھائی کا ڈبہ اور اپنی زندگی کی کمائی کے پہلے آٹھ سو روپے امی کو دیئے
وہ جذبات پر قابو نہ رکھ پائی۔ اُٹھی اور میرے گالوں کو چومتی رہی۔
اور میں نے دیکھا وہ رو رہی تھی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔