بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی، بی این ایم کا جرمنی میں مظاہرہ

292

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا  کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بالخصوص ہرنائی واقعے کے خلاف جرمنی کے دارالحکومت برلن میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور سوشل میں میڈیا میں آن لائن کمپئین چلائی گئی۔ مظاہرے میں پارٹی ورکرز، دوزواہ اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کے علاوہ مقامی لوگوں نے حصہ لیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ اُٹھائے ہوئے تھے۔ احتجاجی مظاہرے میں ”پاکستانی فوج دہشت گرد ہے“،”ہم پاکستانی نہیں بلوچ ہیں“سمیت مختلف نعرے لگائے گئے اور مقامی رہنماؤں نے خطاب کیا۔

مظاہرے سے بی این ایم جرمنی زون کے صدر حمل درا بلوچ نے کہا کہ ہمارے آج کے مظاہرے کا مقصد ہرنائی واقعہ سمیت بلوچستان میں انساانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر آگاہی فراہم کرنا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک گھر پر پاکستانی فوج نے حملہ کرکے معصوم بچی نازبی بی، پیراں سالہ قیصر چھلگری کو قتل اور دو نوجوانوں کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔

حمل درا نے کہا کہ بلوچ قوم کو مظالم کے خلاف آواز اٹھانے اور اپنی سرزمین پر آزادی کی مطالبے پر پاکستان اجتماعی سزا کا نشانہ بنا رہا ہے۔ ڈنک واقعہ، کلثوم بلوچ کا قتل اور اب ہرنائی واقعہ جس میں پاکستان نے ایک پوری خاندان کو بھیڑ بکریوں کی طرح قتل کر دیا ہے۔ ایسے ہزاروں واقعات رونما ہوچکے ہیں اور آج بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ جب تک بلوچ قوم غلام اور پاکستان کے زیرنگرہے، ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ ہمارے مظاہرے کا مقصد بلوچستان میں پاکستانی بربریت سے جرمنی اور یورپی یونین سمیت عالمی برادری کو آگاہ کرنا ہے کہ دنیاکے دیگر مظلوم و محکوموں کے لئے انسانیت کی بنیادپر سول سوسائٹی، سیاسی پارٹیاں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز اٹھاتی ہیں۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ عالمی برادری کو آگاہ کرسکیں کہ بلوچ بھی انسانیت کا حصہ ہے۔ بلوچ کا لہو بھی سرخ ہے۔ بلوچ ایک قابض کے زیر دست ہے اور بلوچ قوم پر دنیاکے کسی بھی محکوم سے زیادہ ظلم و جبر ہو رہا ہے۔

حمل درا نے کہا کہ بلوچستان میں میڈیا ناپید ہے۔ بلوچستان میں سیاسی کارکن، انسانی حقوق کے کارکن، طلبا ء و اساتذہ محفوظ نہیں۔ جو کوئی بھی آواز اٹھاتاہے، اسے یقینا پاکستانی فورسز اٹھاکر لاپتہ کرتے ہیں۔ انہی حالات کی وجہ سے جو بلوچ جان بچا کر جلاوطن ہو چکے ہیں وہ بھی سرزمین اور سرزمین پر رونما ہونے والے واقعات سے منسلک ہیں اور جلاوطنی کے عالم میں بھی وہ اجتماعی سوچ کا حصہ ہیں۔ بلوچ دنیاکے کسی بھی کونے میں ہو، وہ اجتماعی مسائل پر نہ صرف غور و فکر کرتاہے بلکہ آواز بھی اٹھاتاہے۔ ہمارا مظاہرہ اسی اجتماعی سوچ کا مظہر ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کے طول و ارض میں بلوچ نسل کشی عروج پر ہے۔ پاکستانی فورسز انسانی حقوق کے سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔ بلوچستان کے اندر قومی جماعتوں کے لئے آواز اٹھانا ناممکن بنایا جاچکا ہے۔ پوری بلوچ وطن میں آتش و آہن کا بارش روز کا معمول بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا بلوچ نیشنل موومنٹ گزشتہ کئی سالوں سے عالمی سطح پر پاکستان کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی اور اجتماعی سزا کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے اور جرمنی میں آج کا مظاہرہ اسی تسلسل کا حصہ ہے۔
احتجاجی مظاہرے سے دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آزادی بلوچ قوم کا پیدائشی حق ہے۔ آزادی کے لئے آواز اٹھانے پر پاکستان ہزاروں لوگ لاپتہ او ر ہزاروں شہید کرچکاہے۔ آج سے نہیں بلکہ یہ سات دہائیوں سے مظالم کا سلسلہ ہے۔ ہمارے خواتین اور بچے بھی اٹھائے جارہے ہیں، قتل کئے جارہے ہیں۔ پاکستان اپنی قبضہ گیریت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی خونی پنجے گھاڑ چکاہے لیکن یہ جدوجہد اپنے منطقی انجام تک جاری رہے گا۔