ایک لاپتہ شخص کی گرفتاری کے وارنٹ – ٹی بی پی اداریہ

240

ایک لاپتہ شخص کی گرفتاری کے وارنٹ

ٹی بی پی اداریہ

پاکستان کے ایک انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مورخہ 16 اپریل کو پندرہ لوگوں کو مفرور قرار دیکر ان کے خلاف ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔ ان لوگوں پر یہ الزام ہے کہ وہ مبینہ طور پر کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سے تعلق رکھتے ہیں، جس نے 23 نومبر 2018 کو کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اے ٹی سی اس مقدمے کی سماعت سینٹرل جیل کراچی کی انٹی ٹیررزم کمپلیکس میں کررہی تھی۔ حیران کن طور پر عدالت نے راشد حسین نامی شخص کو بھی باقی افراد کے ہمراہ مفرور قرار دے دیا۔ مذکورہ شخص ڈیڑھ سال سے لاپتہ ہے اور انکی اہلخانہ تادم تحریر کراچی پریس کلب کے سامنے سراپا احتجاج ہے۔

راشد حسین کے اہلخانہ کے مطابق 26 دسمبر 2018 کو انہیں متحدہ عرب امارت میں، اماراتی خفیہ ادارے اغواء کرکے لے گئے تھے، جس کی اسی وقت انہوں نے پولیس میں رپورٹ بھی درج کی تھی۔ راشد اگست 2017 سے امارات میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے تھے۔

اس دعوے کی تائید ایمنسی انٹرنیشنل کی یو اے ای چیپٹر نے بھی کی۔ جنہوں نے اپنی دستاویز ایم ڈی ای نمبر 25/9880/2019 میں اماراتی حکومت کے دفتر خارجہ سے مخاطب ہوتے ہوئے ان سے درخواست کی راشد حسین کے بارے میں انکے اہلخانہ کو بتایا جائے اور انہیں انکے خاندان سے ملنے دیا جائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے راشد حسین کو اپنے دستاویز میں “سماجی کارکن” کہہ کر مخاطب کیا۔

تاہم راشد حسین کے اغواء کے چھ ماہ بعد پاکستان کے نمایاں نیوز چینل نے خبر چلاتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستانی حکام کے درخواست پر راشد حسین کو یو اے ای سے گرفتار کیا گیا ہے اور انٹرپول کی مدد سے انہیں پاکستان ڈیپورٹ کیا گیا ہے۔

راشد حسین کو کبھی کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا جبکہ ڈیڑھ سال بعد 16 اپریل 2020 کو پاکستان کی ہی ایک عدالت انہیں مفرور قرار دیتا ہے۔ حیران کن طور پر پاکستانی میڈیا خود انکے بارے میں ایک سال قبل دعویٰ کرچکی تھی کہ وہ پاکستانی حکام کے حوالے کردیا گیا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ کو اماراتی “فیڈرل اتھارٹی فارآڈینٹٹی اینڈ سٹیزن شپ” کی جانب سے جاری کردہ ایک “ایگزٹ سرٹیفیکٹ” موصول ہوا تھا، جس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ راشد حسین امارت کے البتین ائیرپورٹ سے 22 جون 2019 کو نوشکی پاکستان کیلئے رخصت ہوئے تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ راشد حسین کو ایک چارٹرڈ طیارے میں ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔ البتین ائیر پورٹ خاص طور پر چارٹرڈ طیاروں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ مذکورہ ایئر پورٹ امارتی حکومت کے فضائیہ ، اور نیوی و پولیس کے ایوایشن و ائیر ونگ ڈیپارٹمنٹ کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ دوسری طرف نوشکی میں کوئی ائیر پورٹ موجود نہیں، قریب ترین ائیر پورٹ دالبندین کی ہے، جو مکمل طور پر پاکستانی فوج کے زیر کنٹرول ہے۔

راشد حسین کی اہلخانہ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ نے دو مختلف پریس کانفرنسوں میں دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکے پاس ایسے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ راشد حسین پاکستانی اداروں کے تحویل میں ہے، اور اسے مفرور قرار دینا، راشد کے زندگی کو لاحق خطرات میں اضافے کا باعث بنے گا۔

یہ پوری صورتحال پاکستان کے نظام عدلیہ پر سنجیدہ سوالات اٹھارہی ہے۔ اور جس طرح پاکستانی اور اماراتی حکام نے مل کر اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی۔ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو ظاھر کرتی ہے۔

پاکستانی حکام نے اب تک اس دعوے کو مسترد نہیں کیا ہے کہ راشد حسین کو متحدہ عرب امارات سے انٹرپول کی تعاون سے پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔ کورٹ کے گرفتاری وارنٹ کے بعد بھی کوئی ردعمل نہیں دِکھایا گیا ہے۔ تاہم سندھ رینجرز اور کراچی ایوی ایشن اتھارٹی نے راشد کی گرفتاری کی تردید کی ہے۔

ایک ویب سائیٹ بنائی گئی ہے، جو راشد حسین کی گمشدگی کے دن گِن رہا ہے۔ اس ویب سائیٹ پر آج دیکھا جاسکتا ہے کہ راشد حسین کو لاپتہ ہوئے ایک سال، تین مہینے، تین ہفتے اور دو دن ہوچکے ہیں۔ یہ امید رکھی جارہی ہے کہ نمبروں کی یہ مالا زیادہ دیر تک یوں جھپتی نہیں رہے گی، اور بہت جلد راشد حسین کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا، جہاں وہ اپنی بے گناہی ثابت کرسکیں۔