یوسف کرد آج بھی زندہ ہے- چاکر بلوچ

606

یوسف کرد آج بھی زندہ ہے

تحریر : چاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

انسان اگر ایک فکر و نظریے سے خود کو منسلک کرتا ہے یا کسی مقصد کے لیئے ایک راہ پر گامزن ہوتا ہے تو شروعات میں انہیں کافی سخت امتحانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چاہے وہ امتحان فیملی کی شکل میں ہو یا دوستوں کے شکل میں، یہاں ہمیشہ اختلاف آپ کے نظریے سے ہوتا ہے، کبھی آپ کی فیملی آپ کے سوچ و نظریے سے اختلاف رکھنا شروع کرے گا، کبھی آپ کے قریبی دوست جن سے انسان کو بہت سی امیدیں اور توقعات ہوتے ہیں وہ ایک پہاڑ کی طرح آپ کے نظریات سے اختلاف رکھنا شروع کرے گا، لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک نظریاتی انسان میں ایک چیز ہوتا ہے، وہ ہے آپ کی سوچ، آپ کے فکر اور آپ کے نظریے کی پختگی اور یہ نظریہ ہی واحد چیز ہوتا ہے جو آپ کو اندر ہی اندر سے چٹان کی طرح مضبوط کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور وہ آپ کا مضبوط نظریہ اور عمل ہی آپ کو آپ کے نظریاتی دوستوں کے سامنے ایک دن عملی طور پر ضرور ثابت کرتا ہے۔

جس دن سے تحریک کے ساتھ منسلک ہوئے ہیں، آئے روز دوستوں کی شہادت نے اندر ہی اندر سے خوف کو مار ڈالا ہے، معمول کے مطابق صبح جب آنکھ کھلا تو فجر کا وقت تھا، ایک عجیب سی کیفیت تھی، ہر طرف خاموشی تھا، پھر سے سونے کی کوشش کی، لیکن مجال ہے کہ آج نیند آئے، اچانک میرے پاس سوئے ہوئے دوست کی جاگنے کی آواز آئی، وہ معمول کے مطابق فجر کی نماز پڑھتا تھا لیکن آج بے چینی اتنا زیادہ تھا کہ میں نے بھی نماز پڑھنے کی نیت کی اور کمبل سے اٹھ کھڑا ہوا وضو کرنے کے بعد نماز ادا کیا کہ شاید سکون آئے لیکن بے چینی میں ایک عجیب و غریب کیفیت میں مبتلا ہوا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اندر ہی سے ایک طوفان آرہا ہے، جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

خیر جس چیز کا ڈر خوف تھا، آخر وہی ہوا، جب سوشل میڈیا پر آیا تو ہر دوست کے فیس بک اکاونٹ پر پوسٹ تھے “اوارن پھلاک” یا “رخصت اف اوارن سنگتاک” فوراً ایک زمہ دار دوست سے رابطہ کیا تو دوست سے پوچھا “سگنت حوال ایت، انت مسئلہ اے دا” یعنی دوست کیا مسئلہ ہے، مجھے کچھ معلومات دو۔ سنگت نے کہا یار حوال خیر کے نہیں ہیں، بلیدہ میں پانچ سنگت جھڑپ میں شہید ہوئے ہیں، جن میں سے تین ہمارے دوست ہیں اور دو بی ایل ایف کے دوست ہیں تو فوراً مجھے لگا کہ یہ وہی دوست ہیں جو بلوچ اتحادی تنظیم براس کے پلیٹ فارم پر کام کر رہے تھے کیوں کہ میرا تعلق بلوچ لبریشن آرمی سے ہے میں اپنے کچھ دوستوں کو جانتا تھا، وہ بھی کچھ عرصے سے مکران میں براس کے دوستوں کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہے تھے، میں نے سنگت سے دوستوں کے بارے میں معلومات لینے کی کوشش کی لیکن دوست نے تنظیمی راز داری کی وجہ سے نام بتانے سے گریز کیا اور کہا کہ تنظیم کی طرف سے کچھ دیر میں نیوز آئے گا شاید دوستوں کو جانتے ہوگے۔

براس کے نام سے نیوز سامنے آیا تو پانچوں دوستوں میں سے ایک دوست کو جانتا تھا، وہ دوست یوسف کرد عرف دودا تھا۔ یوسف سے کبھی آمنے سامنے ملاقات نہیں ہوا تھا، کچھ ہی عرصے پہلے یوسف کی شادی ہوئی تھی، یوسف بالکل چیئرمین زاہد کرد کا کاپی تھا، بلکہ اسی طرح جیسے فدائی بابر مجید ذاکر مجید کی طرح تھا، یوسف نے واقعی زاہد کے مشن و فلسفے کو جاری رکھا، اپنی تمام تر ذاتی خواہشات کی قربانی دے کر اس بات کا اعادہ کیا اسے آخری دم تک لڑنا ہے۔ اس نے بندوق کو اپنے ہاتھ میں تھاما کہ وہ نہ صرف لاپتہ چیئرمین زاہد کرد کے لیئے اپنے دل میں درد رکھتا ہے بلکہ تمام لاپتہ بلوچ نوجوان کے اوپر ڈھائے ظلم کا درد محسوس کرتا ہے۔

سلام صابر ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
“یوسف کو جو دوست جانتا تھا، جس نے اسے دیکھا تھا، جس نے اس کے ہمراہ سفر کیا ہے، وہ سب گواہی دیں گے کہ یوسف اک باعمل انسان تھا، ایک مہربان دوست تھا، ایک خوش مزاج سنگت تھا، اک خیال رکھنے والا بھائی تھا۔

یوسف جسمانی طور پر ہم سے جدا ضرور ہوا ، لیکن اس کی ہنسی، اس کی لگن ، محنت اور قربانی ہمیں کبھی بھی تھکنے نہ دے گا ، ہمیں رکنے نہیں دے گا، اور سب سے بڑھ کر یوسف کی سربلندی و سرفروشی ہمیں جھکنے نہیں دے گا”

واقعی آج ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یوسف آج بھی زندہ ہے، لیکن مرے تو آج ہم لوگ ہیں، کیوںکہ ہم آج یوسف جیسے ایک انمول دوست، ایک ہیرے سے محروم ہو گئے ہیں، یوسف سے ہم جسمانی طور پر ضرور جدا ہوئے ہیں، لیکن یوسف اور ہمارا فکر اور مقصد ایک ہی ہے اور اس بات کا اعادہ کرنا ہے کہ فکر ء یوسف کو آگے لے جانا ہے، جب اس کے فلسفے اور اس کے نقش قدم پر دوست چلیں گے، یوسف کو اس بات کا سکون ضرور ہوگا کہ جس مقصد کے لئے میں نے آج قربانی دی ہے دوست اسے آگے لے جانے میں دن رات محنت کررہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔