یہ وقت استاد کے شہادت کا وقت نہیں تھا – کوہ روش بلوچ

345

یہ وقت استاد کے شہادت کا وقت نہیں تھا

تحریر: کوہ روش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کہتے ہیں انقلاب وہ پودا ہے، جو اپنے بچوں کے خون سے پرورش پاتا ہے اور بڑا ہوتا ہے، میں اپنے تجربات سے یہ بات کہتا ہوں کبھی کبھی انقلاب اپنے ایسے بچوں کا بھی خون پیتا ہے جو پرورش پانے کے بجائے مزید مرجھا جاتا ہے۔ شاید بلوچ تحریک آزادی اس کا جیتا جاگتا مثال ہوگا، اگر میں غلط نہ ہوجاؤں تو بلوچ تحریک آزادی وہ تحریک آزادی ہے، جس میں لاتعداد رہنما جدوجہد کے پہلے ہی مرحلے میں شہید یا لاپتہ ہوئے ہیں۔ پہلے پہل غلام محمد،لالا منیر، سنگت ثناء،آغا عابد، ڈاکٹر خالد، رضا جہانگیر،حاجی رزاق سمیت کئی رہنما شہید ہوئے ہیں یقیناً تحریک کو اس وقت ان لوگوں کے شہادت سے زندہ رہ کر قربانی دینے کی ضرورت زیادہ تھا، پتہ نہیں کیوں ہمیں شہید ہونے کی جلدی ہوتی ہے ہرگز قربانی دینے کا مقصد صرف شہادت پانا نہیں ہے، میری رائے کے مطابق قربانی ان تمام چیزوں کے مجمع کو کہتے ہیں جو آپ اپنے زندگی میں دیتے ہیں اور ان تمام چیزوں کوزندہ رکھنے کے لئے موت کو گلے لگاتے ہو اور شہادت کے درجے پہ فائز ہوتے ہو، مگر ہمیں ابھی تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ قربانی صرف شہادت کو نہیں کہتے ہیں۔ درجہ بالا میں نے جتنے نام لیئے ان سب کی اس وقت تحریک کی اشد ضرورت تھی، زندہ رہ کر شہادت کے موت کی نہیں۔ ہم صرف آہ قسمت کہہ سکتے ہیں۔

ایک سال قبل جب شہید استاد اسلم کے شہادت کی خبر موصول ہوا تو میرے منہ سے پہلا یہ جملہ نکلا کہ یہ وقت استاد آپ کے جانے کا نہیں تھا، اور انتہائی دردبھی ہوا میں اس وقت خود کو اس بات پہ تسلی دے سکتا کہ جنگوں میں ایسا ہوتا ہے، جنگ مارنے اور مرنے کا نام ہے مگر جنگ میں بھی کوئی وقت سے پہلے چلا جائے تو جتنا نقصان اس کے جانے سے ہوتا ہے، اس کے زندہ رہنے سے کئی گناہ زیادہ فائدہ ہوتا ہے، یقیناً استاد کے شہادت سے جس قدر بلوچ تحریک کو نقصان ہوا ہے، استاد کے زندہ رہنے سے کئی گناہ زیادہ فائدہ ہوتا۔ استاد موجودہ تحریک آزادی میں وہ لیڈر تھا جو اپنے غلطیوں سے بہت جلد بہت کچھ سیکھتا تھا، موجودہ تحریک میں جب سوشل میڈ یا پہ جس طرح تحریک کے خلاف سازشیں شروع ہوئیں اور ایک دوسرے کے درمیان جس طرح دوری پیدا کیا گیا تھا اور جنگ کو دشمن کے بجائے اپنوں میں تیز کیا گیا اور آپس میں جنگیں شروع کی گئی تھیں، یقیناً اگر ان تمام چیزوں پہ اگر استاد نے قدم نہیں اٹھایا ہوتا تو شاید آج بھی یہ تمام چیزیں اسی رفتار سے چلتی آرہی ہوتیں اور یقیناً استاد نے ان تمام چیزوں کو سمجھ لیا اور آپ نے یہ بھی سمجھ لیا تھا کہ یہ تمام چیزیں بلوچ تحریک آزادی کے لئے انتہائی نقصاندہ ہیں اور یہ تمام چیزیں بلوچ تحریک آزادی کو اصل مقصد کے بجائے کسی اور جانب دکھیل رہے ہیں۔

کہتے ہیں وقت پہ اگر سخت اقدام اٹھائے جائیں تو وقتی صورت میں شاید مشکلات کچھ زیادہ ہوں، مگر آنے والے دنوں میں اس کے فوائد کئی گناہ زیادہ ہوسکتے ہیں اور استاد نے ایسا ہی قدم اٹھایا تھا، اس وقت جب استاد اسلم اور دوستوں کے خلاف بے بنیاد الزام جھوٹے پروپگنڈے شروع کیے گئے، مگر آج حقیقت سب کے سامنے ہے۔ ِاس وقت بلوچ تحریک آزادی کو اگر نئی روح پھونکی ہے تو وہ استاد اسلم نے پھونکی ہے، مجھے یاد ہے ریحان کے کاروائی سے پہلے اکثر دوستوں میں یہی بے چینی پایا جارہا تھا کہ اب بلوچ تحریک آزادی پہلے ادوار کی طرح ختم ہورہا ہے اور ایک بار پھر بلوچ تحریک کے نصیب میں سرد مہری لکھا ہوا ہے، مگر شہید ریحان کے کاروائی میں بلوچ نوجوانوں کو ایک ایسی راہ ملی جس کے بعد بلوچ تحریک آزادی واشنگٹن اور ماسکو میں بھی ڈسکس ہونا شروع ہوا اور تحریک آزادی ایک بار پھر اسی رفتار کے ساتھ تیزی کے ساتھ جانب منزل گامزن ہوا ہے میں اسی لئے کہتا ہوں اس وقت شہید اسلم کے شہادت کا وقت نہیں تھا اور اس وقت جس قدر استاد کو زندہ رہ کر قربانی دینے کی ضرورت تھی، شاہد استاد کے شہادت کی ضرورت نہیں تھا اور استاد کے شہادت سے تحریک کو صرف نقصان پہنچا ہے۔

اس کا ہرگز مقصد یہ نہیں کہ اب بلوچ تحریک آزادی ختم ہوا ہے، تحریکوں میں داؤ پیچ، اتار چڑاؤ ہر وقت آتے رہتے ہیں۔ کھبی کھبار اس طرح کے حالت آجاتے ہیں کہ لوگ یہ سمجھ جاتے ہیں کہ اب یہ تحریک ختم ہوا ہے مگر وقت اور حالت کے ساتھ پھر سے ابھر کر سامنے آتے ہیں اور مزید مضبوط اور موثر انداز میں جانب منزل گامزن ہوتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ حکمت عملی اور پالیسیوں نے ہر وقت دنیا کے نقشے کو بدل ڈالا ہے، اس وقت اگر بلوچ تحریک آزادی کو ضرورت ہے موثر حکمت عملیوں اور مضبوط پالیسیوں کی، جس سے دشمن شکست سے دوچار ہو بلوچ سرفیس اور مزاحمتی تنظیموں کو مزید مضبوط پالیسی اپنانا ہوگا اور ایسے پالیسی کہ وہ دشمن کے نیندوں کو اڑا سکے، اگر ہمیں جنرل اسلم اور دوستوں کے ارمان کو پورا کرنا ہے تو مزید اس جنگ میں شدت لانا ہوگا اور بلوچ لیڈران سمیت تمام سیاسی کارکنوں اور تحریک سے جھڑے ہر مکتبہ فکر کو اس وقت سر جوڑ کر یہ سوچنا ہوگا کہ کیسے ہم بلوچ آزادی کی تحریک کو موثر اور جامع انداز میں آگے لے جاسکتے ہیں، یقیناً اس وقت بلوچ قوم کے پاس براس(بلوچ راجی آجوئی سنگر) جیسا اتحاد موجود ہے اور مزید، براس(بلوچ راجی آجوئی سنگر) کو مضبوط کرکے بلوچ سرزمین پہ ساحل وسائل کی حفاظت کریں اور بلوچ قوم کو آزادی دلا سکیں کیونکہ مضبوط پالیسیاں قوم کی تقدیرکی نکھار ہیں او رمضبوط پالیسیاں قوم کے تقدیر کی ضامن ہوتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔