استاد اسلم بلوچ ایک تحریک کا نام ۔ نوروز بلوچ

682

استاد اسلم بلوچ ایک تحریک کا نام 

تحریر: نوروز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ میں ہمیشہ وہی لوگ امر ہوجاتے ہیں جِن کا کردار ؤ عمل استعمار کے خلاف مزاحمت کی علامت ہوتی ہے۔ جن کے زبان کے ہر لفظ اور قلم کی ہر جنبش ظلم و استحصال کے خلاف چلتی ہے۔

ظلم کے خلاف صرف باضمیر لوگ ہی آواز بلند کرتے ہیں اور سرزمین کیلے وہی لوگ لڑتے اور مرتے ہیں جن کو اپنی مادر وطن سے بے پناہ محبت ہوتی ہے کیونکہ وطن کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے افضل کوئی فریضہ نہیں ہوتا۔

آزادی کے حصول کیلئے قوموں کی زندگی میں اکثر اوقات ایسے مرحلے بھی آتے ہیں، جب اس عظیم نعمت کیلئے اپنے وجود کے احساس تک کو مٹانا پڑتا ہے۔ اس وقت وجود محض آزادی کا نام بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر اُس قوم کے رہنما بھی اسی عظیم منزل کو مراد سمجھ لیں اور اسی کو زندگی اور مقصودِ زندگی قرار دیں تو اُس قوم کی تاریخ میں ایسے افراد دائمی اور لازوال نقوش چھوڑ کر تاریخ میں امر بن جاتے ہیں۔

جنرل اسلم بلوچ، بلوچوں کی تاریخ کا ایسا ہی کردار ہے، وہ فرد نہیں بلکہ ایک مکمل تحریک کا نام ہے اگر استاد کو، بلوچ قومی تحریک کو ایک نئی جہت دے کر تحریک کو نئی رُخ پر متعن کرنے والے کردار سے تشبیہہ دوں تو غلط نہیں ہوں گا۔ استاد اسلم وہ زمین زادہ تھا جس کو اپنی سرزمین سے بے پناہ محبت تھا اور اس کی محبت کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔

تاریخ میں یہ بات لکھا جائے گا کہ بلوچ ماوں نے اپنے بچوں کی قربانی سے کبھی دریغ نہیں کی ہے۔انہوں نے ہر دور میں بہادر اور دلیر بچے جنم دیے، بلوچ ماؤں نے ہمیشہ مھراب، خیر بخش اور اکبر پیدا کئے ہیں، بلوچ ماؤں نے سرزمین کی تحفظ اور آزادی کی حصول کے خاطر ہمیشہ بالاچ اور کریمہ کو جنم دیا ہے۔

اسلم بلوچ کو بھی ایک بہادر بلوچ ماں نے پیدا کیا ہے، جس نے اسلم بلوچ سے استاد اسلم بلوچ اور جرنل اسلم تک کا سفر طے کرکے بلوچ قومی تحریک کو ایک نیا رنگ دیا، جس نے استعمار کی غلامی کے خلاف نہ صرف اپنے بہادر بیٹے ریحان جان کو مادروطن کیلئے قربان کرکے ایک اعلی اور عظیم مثال قائم کیا بلکہ اس حصول کی خاطر خود کو بھی قربان کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بلوچ ایک زندہ قوم ہے اور وہ اپنی سرزمین کی آزادی کے خاطر ہر طرح کی قربانی دے سکتا ہے مگر دشمن کے آگے کبھی بھی جھک نہیں سکتا۔

استاد جرنل اسلم بلوچ سے جذبہ حریت اور جنون کی حد تک بلوچ تحریک سے لگاو کا درس ملتا ہے، انہوں نے ہر طرح کی مشکلات کا بہادی سے سامنا کرکے قومی تحریک کو مضبوط بنانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کیا اور اس کے جوش و جذبوں میں کبھی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ وہ ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہا کہ قومی تحریک کے اندر کس طرح نئی راہیں تلاش کرکے دشمن کو شکست دیا جاسکتا ہے۔

فرانز فینن نے کہا تھا کہ آزادی کے حصول کیلئے ایک غلام قوم کو استعمار کے خلاف جنگ کرنا بےحد ضروری ہے، فینن نے جنگ کو غلامی کا خاتمہ قرار دیکر دنیا کے تمام غلام قوموں کو یہ درس دیا کہ تشدد کا جواب تشدد سے ہی دیا جاسکتا ہے۔

غلامی کے خاتمے کے لئے جس راہ کا فینن نے زکر کیا تھا، بابا خیربخش نے وہ راستہ اپناکر بلوچوں کو اس کا درس دیا اور استاد جرنل اسلم بلوچ نے وہ عظیم راستہ چن کر اس پر عمل کرکے ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں