بلوچ خواتین کا اغواء جنگی قوانین کی پاسداری چھوڑنے پر مجبور کرسکتے ہیں ۔ اخترندیم

398

بلوچ آزادی پسند رہنما اختر ندیم بلوچ نے آواران اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچ خواتین کی اغوا نما گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ستر کی دہائی میں بنگالی عورتوں پر ہونے والی مظالم کو بلوچستان میں دُہرا رہا ہے۔ بنگالی نسل کشی پر دنیا کی خاموش حمایت نے پاکستان کو استثنیٰ دے رکھی کہ وہ دوسری محکوم قوموں کا بھی قتل عام کرے۔ یوں بنگالی نسل کشی کے بعد سے بلوچستان مسلسل سلگ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آواران میں خواتین کے اغواء کے بعد بلوچ قوم کی طرف سے شدید دباؤ کے بعد ایک جعلی کیس بنا کر پولیس کے حوالے کرنا محض ایک ڈرامہ ہے۔ بلوچ خواتین کو گرفتار کرکے اسلحہ کے ساتھ پیش کرنا پاکستانی بھونڈی نظریه ہے، ایسی حرکات کی دنیا نے نوٹس نهیں لی تو بلوچ بھی مجبور ہوں گے کہ جنگی قوانین کی پاسداری چھوڑ دیں،اور دشمن کو خبر ہونی چاہیئے که نہ اسکے مقامی گماشتے بلوچ کے قہر سے بچیں گے اور نه پنجاب بلوچوں سے دور ہے۔

اختر ندیم بلوچ نے کہا کہ دشمن کی بھول ہے کہ وہ اوچھے ہتھکنڈوں سے بلوچ قومی تحریک کو کمزور کر سکے گا۔ یہ بلوچ قوم کی روایت ہے کہ وہ جنگ میں عورت اور بچوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔ اب یہ ایک عالمی قانون بھی بن گیا ہے مگر ہمارا سامنا ایک نہایت ہی غیر مہذب دشمن سے ہے۔ عالمی اداروں کو اس بات کا فوری اور سخت نوٹس لینا چاہیئے۔