اپنے دور حکومت میں براہمداغ بگٹی سے کامیاب مذاکرات کیے – حاصل بزنجو

356

نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء حاصل بزنجو نے کہا ہے کہ اپنے دور حکومت میں براہمداغ بگٹی کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوئے اور اس وقت کے آرمی چیف اور وزیراعظم نواز شریف کو براہمداغ بگٹی سے ہونے والے مذاکرات سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ان کے مطابات جائز ہیں اور ان کو تسلیم کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، اب میں اسی بات پر پریشان ہوں کہ اس معاملے میں رکاوٹ کون بن سکتا ہے؟ کہ سول اور عسکری قیادت کو ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہوگا۔

بلوچستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اب تک کسی حکومت نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی ایک مسئلہ سیاسی استحکام کا ہے اور دوسرا پسماندگی کا ہے۔

غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے رہنما نے کہا کہ وہ آرمی چیف کا وزیر اعظم عمران خان کے ہمراہ امریکہ جانے کی حمایت کرتے ہیں لیکن آرمی چیف کو اقتصادی کمیٹی کا حصہ نہیں ہونا چاہیے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کوئی ملک فوج کے بغیر نہیں چل سکتا امریکہ میں جو بات ہوئی وہ ریاست کی بات ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ عمران خان کریں نواز شریف کریں یا کوئی اور بات کرے وہ ملک کی بات ہے مگر جنرل باجوہ مجھ سے اگر پوچھیں تو میں ان کی ایڈوائیزری کمیٹی (نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل) میں بیٹھنے کی مخالفت کروں گا۔

انکا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں عسکری قوت اور سویلین کے درمیان یہ تنازعہ ہے کہ فوج سمجھتی ہے کہ بہت سے معاملات میں سویلین بہتر کام نہیں کر سکتے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ معاملات فوج نہیں پارلیمنٹ کر سکتی ہے اس تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے ملک میں ایک گرینڈ ڈائیلاگ ہونا چاہیے تحریک انصاف کی حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان ہونا چاہیے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ فوج چھ ماہ ایک حکومت کا ساتھ دے اور چھ مہینے مخالفت کرے طاقت کے محور کو علیحدہ کرنے کے لیے ایک قومی مباحثے کی ضرورت ہے۔

انکا کہنا تھا کہ سول اور عسکری قیادت کو ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہوگا بلوچستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اب تک کسی حکومت نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی ایک مسئلہ سیاسی استحکام کا ہے اور دوسرا پسماندگی کا ہے مسئلہ حل ہونے کے بجائے پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اس مسئلے پر ہم نے اپنے دور حکومت میں اس وقت کی اسٹیبلیشمنٹ کی اجازت سے ملک سے باہر بیٹھی قیادت سے بات کی تھی ڈاکٹر عبدالمالک وزیر اعلی تھے ہم نے پوری کوشش کی تھی اور کافی آگے تک بات بڑھ چکی تھی لیکن ہماری حکومت ختم ہونے کے بعد وہ بات ہی غائب ہو گئی بلوچستان حکومت نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف اور وزیراعظم نواز شریف کی اجازت سے براہمداغ بگٹی سمیت دیگر بڑے گروپس سے مذاکرات کیے تھے اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئے تھے-

انہوں نے بتایا کہ براہمداغ بگٹی کا مطالبہ تھا کہ گیس کی رائیلٹی کو اس حساب سے رکھا جائے جس طرح ان کے دادا کے زمانہ میں ہوا کرتی تھی جس علاقے سے گیس پائپ لائن گزرتی ہے وہاں کے مقامی افراد کو نوکریاں دی جائیں اس قسم کے مطالبات تھے جو کہ کوئی مسئلہ نہیں تھا حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ آرمی چیف اور وزیراعظم نواز شریف کو براہمداغ بگٹی سے ہونے والے مذاکرات سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ان کے مطابات جائز ہیں اور ان کو تسلیم کرنا کوئی ایشو نہیں ہے میں اسی بات پر پریشان ہوں کہ اس معاملہ میں رکاوٹ کون بن سکتا ہے؟ اسٹیبلیشمنٹ کیوں بیک آوٹ کر گئی اس کا پتہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے مریم نواز کی زبان میں کوئی سختی محسوس نہیں ہورہی اگر کوئی جج ایسا کرے گا تو کیا اپوزیشن میں رہ کر آپ بات نہیں کریں گے تو اپوزیشن کیسی پھر تو بہتر ہے آپ حکومت کے ساتھ مل جائیں شریف خاندان کے درمیان اختلاف کی گنجائش موجود نہیں کسی کا لہجہ سخت ہو سکتا ہے کوئی نرم لہجہ رکھتا ہے لیکن فیصلے کا اختیار اب بھی نوازشریف ہی رکھتے ہیں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ہوں میں ہوں یا کوئی اور اس سے ملک میں کیا تبدیلی آنی ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ میرے چیئرمین سینیٹ بننے سے صوبے کو کوئی فائدہ ہوگا۔

سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ ان عہدوں سے کسی صوبے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا چیئر مین سینیٹ ایک باوقار عہدہ ہے سب سے زیادہ قانون سازی بھی اسی ایوان میں ہوتی ہے اس عہدے کے اتنی ہی اہمیت ہے چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی ذاتی طور پر برے آدمی نہیں ہیں لیکن یہاں معاملہ ذاتی نہیں سیاسی ہے سینیٹ میں اپوزشین اکثریت میں ہے تو ان کا حق ہے کہ چیئر مین ان کا ہو صادق سنجرانی کو وزیر اعظم اور وزراء کے پاس نہیں جانا چاییے تھا ان کا عہدہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا چئیرمین سینیٹ کی تبدیلی سے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن حکومت زیادہ پریشان ہے،پتہ نہیں وہ اس کو کیا سمجھ رہے ہیں۔

حاصل بزنجو نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہیکہ وہ کسی نا کسی طرح اپوزیشن کے سینیٹرز کی وفاداریاں تبدیل کرلے اور تو کوئی طریقہ نہیں حکومت دبا ڈالی گی لالچ دے گی خرابی کریں گے جو ایک اچھی روایت نہیں ہے جو ہمارے ملک میں پہلی سے چلتی آرہی ہے دنیا میں جو بھی حکومت ہوتی ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اپوزیشن کو متحد نہ ہونے دیا جائے لیکن بد قسمتی ہے کہ ملک میں ایسی حکومت آ گئی ہے جس نے ڈنڈا اٹھایا ہے کہ جب تک ساری اپوزشین میرے خلاف متحدہ نہ ہوجائے میں ان کو نہیں چھوڑوں گا-

حاصل بزنجو کا. مزید کہنا تھا کہ موجودہ ملکی صورتحال میں ہم کسی ایسے عمل سے نہیں گزرے گیں جس سے ریاست کا نقصان ہو عید کے بعد اپوزیشن کے سربراہان کا اجلاس بلایا جائے گا جس میں نئی حکمت عملی طے کی جائے گی ہماری کوشش ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ملک میں افراتفری پیدا نہ کریں-