علی حیدر کو لاپتہ کرنا انسانی حقوق کے خلاف اٹھنے والی آوازوں پر ایک ہولناک حملہ ہے۔ بی این ایم

151

علی حیدر کو لاپتہ کرنا واضح کرتا ہے کہ پاکستان نے ہر اٹھنے والے آواز کو ختم کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیا ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے میڈیا کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ لاپتہ رمضان بلوچ کے بیٹے علی حیدر بلوچ کو گوادر سے قابض ریاست کے فوج اور خفیہ اداروں نے اٹھا کر لاپتہ کردیا۔ علی حیدرکو لاپتہ کرنا واضح کرتا ہے کہ پاکستان نے زندانوں میں قید اپنے پیاروں کے بازیابی کے لئے ہراٹھنے والی آواز کو ختم کرنے کا ایک حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ علی حیدر کو اٹھانا انسانی حقوق کے خلاف اٹھنے والی آوازوں پر ایک ہولناک حملہ ہے۔ ان کے والد رمضان بلوچ کو فوج نے ان کی آنکھوں کے سامنے 24 جولائی 2010کو زیروپوائنٹ اوتھل حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔ رمضان بلوچ اپنے گھر کا واحد کفیل اور سرپرست ہے۔ ہزاروں بلوچوں کی طرح رمضان بلوچ کو ماورائے قوانین و اخلاقیات اٹھاکر معصوم علی حیدر سے بچپن چھین کر اسے مشکلات سے دوچار کردیا گیا لیکن اس بہادر بچے نے ہمت ہارنے کے بجائے بچپن میں وہ بے مثال جدوجہد کی جسے انسانی تاریخ کبھی نہیں بھلاسکتا۔

ترجمان نے کہا کہ علی حیدر کی حیثیت صرف ایک لاپتہ باپ کے بیٹے کی نہیں بلکہ وہ اُن ہزاروں لوگوں کے لئے ایک جرات آمیز مثال اور علامت ہیں جو پاکستانی ریاست کی بربریت کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں۔ علی حیدر نے بچپن کی معصومیت، پڑھائی اور کھیل کھود کی زندگی سے محروم ہوکر اپنے والد سمیت ہزاروں لاپتہ لوگوں کی بازیابی کے لئے بے مثال جدوجہد کی ہے۔ وہ نہ صرف بلوچ بلکہ انسانی تاریخ کے انمول باب کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ علی حیدر کو اٹھاکر پاکستان نے ثابت کردیا کہ قومی سیاست توکجا محض انسانی حقوق کے لئے آوازاٹھانے سے بھی قابض ریاست خوف زدہ ہے۔ یہ خوف ریاست کی بربریت سے عیاں ہے۔ لیکن پاکستان ایسے مظالم سے بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ پاکستان روز بروز اپنے جنگی جرائم میں اضافہ کررہا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ رمضان بلوچ کا تعلق مشکئے سے ہے اور وہ بی این ایم کا سرگرم کارکن ہیں۔ معاش کی تلاش کے لئے وہ گوادر منتقل ہوگئے۔ رمضان بلوچ کو نو سال قبل فورسز نے علی حیدر اور دوسرے لوگوں کے سامنے حراست میں لے کر ٹارچر سیل منتقل کردیا۔ اپنے والد کی بازیابی کے لئے علی حیدر نے تاریخ ساز جدوجہد کی۔ افسوس کہ وہ اپنے والد کو بازیاب کرانے میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن خو د پاکستانی بربریت کا نشانہ بن گئے۔

ترجمان نے کہا کہ ایک جانب لوگوں کو تیزی سے اٹھاکر لاپتہ کیا جارہا ہے تو دوسری جانب اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانے والوں سے احتجاج کا حق بھی چھیننے کا وحشت ناک عمل بھی جاری ہے۔ چند روز قبل وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کے کیمپ کو نذرآتش کیا جاچکا ہے جبکہ فوج اور خفیہ اداروں کی جانب سے دھمکیوں کاسلسلہ روزاول سے جاری ہے۔ علی حیدر کو لاپتہ کرنے کے عمل نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان نے لاپتہ افراد کے بازیابی کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کو ختم کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیا ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا کہ تمام انسانی حقوق کے اداروں، سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنوں اورسوشل میڈیا کے صارفین سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان فوج و خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ علی حیدر سمیت ہزاروں بلوچوں کے لئے آواز اٹھائیں اوراپنا انسانی و قومی فرض نبھائیں۔