تاریخ، مورخ اور بلوچ نوجوان ۔ لطیف بلوچ

310

تاریخ، مورخ اور بلوچ نوجوان

تحریر۔ لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ لکھی جارہی ہے، تاریخ مورخ نہیں بلکہ بلوچ نوجوان اپنے خون سے لکھ رہے ہیں۔ آخری گولی اپنے نام کرکے تاریخ میں امر ہورہے ہیں اور تاریخ بھی ان نوجوانوں کا مقروض ہے جو اپنا مقدس خون بہا کر تاریخ بنا رہے ہیں۔ آج کا مورخ بھی اس بات پر حیران ہے کہ بلوچ نوجوان جس طرح تاریخ رقم کررہے ہے آج سے قبل کوئی مورخ اس طرح صاف اور واضح الفاظ سے تاریخ نہیں لکھ سکا ہے، تاریخ کے اس موڑ پر جب ایک طرف قابض اپنے طاقت کے گھمنڈ اور غرور میں بلوچ سرزمین پر طاقت کا بے دریغ استعمال کررہا ہے، نسل کشی، قتل عام، لوٹ مار کے نت نئے طریقے استعمال کررہا ہے، بلوچ سرزمین اور وسائل کو لاوارث جان کر کھبی چین تو کھبی سعودی عرب تو کھبی دیگر ممالک سے بلوچ سرزمین، ساحل اور وسائل کا سودابازی کرتا ہے، جب کوئی بلوچ ان ناانصافیوں، مظالم، لوٹ کھسوٹ، جبر کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے وہ غدار، دہشت گرد اور باغی قرار دیا جاتا ہے۔ اُن کےلئے بد نام زمانہ عقوبت خانوں اور ٹارچر سیلوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، تشدد کے ذریعے اُن کو خاموش کرانے کی کوشش کیا جاتا ہے، زبان بندی کے لئے گمشدگی، مسخ شدہ لاشوں اور اجتماعی قبروں کا سہارا لیا جاتا ہے، ظلم، زیادتی، ناانصافی، لوٹ مار، اور قبضہ گیریت کے خلاف بات کرنے کو گناہِ کبیرہ تصور کیا جاتا ہے، انصاف کے تمام راہیں مسدود کرکے کہا جاتا ہے کہ بلوچ غدار ہیں، بلوچ بندوق اُٹھا کر لڑ رہے ہیں، بلوچ ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچوں کے بندوق اُٹھانے، لڑنے اور مرنے کے محرکات کیا ہیں اور اس انتہاء اور نہج پر کیوں پہنچے ہیں؟ یہ جاننے کے بجائے ریاستی دانشور اور ریاستی میڈیا بلوچ قومی تحریک اور تحریک سے منسلک رہنماؤں کے خلاف میڈیا ٹرائل کے ذریعے دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بلوچ تحریک کو ایک دہشت گرد تحریک ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کرتے آرہے ہیں، بلوچ تحریک پر الزامات اور تہمات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

ایسے الزامات اس سے قبل بھی لگتے رہے ہیں 1973 میں بلوچ قوم پر عراق سے اسلحہ اور مدد لینے کے الزامات لگائے گئے، اسلام آباد میں عراق کے سفارت خانے سے اسلحہ برآمدگی کا ڈرامہ رچایا گیا، بلوچ قیادت کو حیدر آباد سازش کیس میں جیلوں اور عقوبت خانوں میں بھیجا گیا، آج افغانستان اور بھارت سے امداد لینے کے الزامات لگائے جارہے ہیں، بقول سردار عطاء اللہ مینگل بلوچ پاکستان کے ظلم و زیادتیوں کے خلاف مشتعل ہے، بلوچ بھارت سمیت کسی اور کو نوازنے کے لئے نہیں لڑ رہے اگر بھارت کو مدد کرنا ہوا تو وہ بائے پوسٹ مدد نہیں کرے گا خود چل کر یہاں آئے گا، جس دن بھارت نے مدد دیا تو اُس دن کوئی جنرل نیازی کسی کیمپ میں بند نظر آئے گا۔

27 مارچ 1947 کو پاکستان نے تمام سیاسی و سفارتی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، بلوچستان پر حملہ کرکے بزور طاقت بلوچستان کی آزاد و خود حیثیت کو سلب کرکے بلوچستان پر قابض ہوا، آج کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کو کچھ حلقے عالمی سفارتی اصولوں کے برخلاف قرار دے کر کہتے ہیں کہ اس عمل سے بلوچوں کے خلاف ریاست کو مزید طاقت استعمال کرنے کا جواز مل جائے گا، عالمی سطع پر سفارتی کاری کو دھچکا لگے گا، اگر اپنا دفاع کرنا دنیا کی نظروں میں ایک غلط اقدام ہے، ایسے غلط اقدامات مہذب ممالک نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے وقتاً فوقتاً اُٹھاتے رہے ہیں، اگر اقوام عالم پاکستان، چین سمیت دیگر عالمی طاقتوں کو اس بات کے لئے پابند نہیں بناسکتا کہ وہ اپنے مالی مفادات کے لئے مظلوم اور چھوٹے اقوام کے خلاف طاقت استعمال کرنے سے گریز کریں، اپنی جبری قبضہ ختم کرے، لوٹ مار اور قتل عام کا سلسلہ ترک کریں، تو ایسے میں اقوام عالم کو یہ بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی مظلوم اور کمزور کو اس بات کے لئے پابند کرے کہ وہ اپنا دفاع نہیں کرے۔

اگر اقوام متحدہ سمیت دیگر مہذب قوتیں خون خرابے کو انسانیت کے خلاف جرم سمجھتے ہے پھر اُنھیں چاہیئے اور یہ اُن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ طاقتوروں کو انسانیت کے خلاف جرائم اور انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑانے سے روکیں۔

جہاں تک طاقت کے استعمال کرنے کے جواز کی جو دلیلیں دے رہے ہیں، اُن کے خدمت میں عرض ہے کہ طاقت کا استعمال بلکہ بے دریغ، اندھا دھند اور بھر پور استعمال 27 مارچ 1947 سے ریاست بلوچوں کے خلاف کررہی ہے اور اس طاقت کے استعمال میں دن بدن شدت لائی جاری ہے، جس انداز اور جس شدت سے ریاست بلوچوں کے خلاف طاقت استعمال کررہی ہے اُس کے مقابلے میں بلوچوں کی دفاعی ردعمل بہت محدود ہے، بلوچ جنگی اصولوں کو مدنظر رکھ کر لڑ رہے ہے جبکہ ریاست جنگی اصولوں کو پامال کرکے نہتے، بے گناہ اور جنگ سے لاتعلق لوگوں کو نشانہ بنارہی ہے، بچوں اور خواتین تک کو نشانہ بنائی جارہی ہے، بے گناہ لوگوں کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی ہیں، اجتماعی قبروں میں لوگوں کو زندہ درگور کیا جاتا ہے، ایسے انسانیت سوز جرائم پر عالمی اداروں کی خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے، جن اداروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کرنے والے مجرموں کا تعین کرکے اُن کے خلاف کاروائی کریں، اگر وہ ادارے مصلحت پسندی کا شکار ہونگے تو پھر اُس قوم کے فرزندوں کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اپنے سرزمین، وسائل اور لوگوں کی دفاع کریں۔

آج بلوچ فرزند بہ حالات مجبوری اور عالمی قوتوں کی جانب سے نظر اندازی کے بعد ایسے سخت اقدامات اُٹھانے پر مجبور ہوچکے ہیں، سیاسی، جمہوری راہیں مسدود ہونے سیاسی سرگرمیوں، تحریر، تقریر اور آزادی اظہار رائے پر پابندی کے بعد بلوچ قوم نے اس راہ کا چناؤ کیا ہے کہ وہ اپنے قیمتی جانیں نچھاور کررہے ہیں، اپنی زندگیوں کو اپنے سرزمین پر قربان کررہے ہیں، شہید رازق بلوچ، شہید اضل بلوچ، شہید رئیس بلوچ، شہید ریحان بلوچ، شہید درویش سمیت دیگر ہزاروں شہداء کی آنکھوں میں بھی کچھ حسین سپنے ہونگے اُن کو بھی ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی اور بچوں سے محبت ہوگی وہ بھی جینے کے اصولوں سے آشنا ہونگے لیکن اُنہوں نے اپنے خواب، اپنے احساسات، اپنے خواہشات اور زندگی کے رنگینوں کو اپنے آنے والی نسلوں کی خوشحالی اور آزادی کے لئے قربان کئے تاکہ آنے والی نسلیں آزاد فضاء میں سانس لے سکیں، اپنے حسین آج کو ہمارے خوبصورت کل کے لئے قربان کرکے تاریخ میں ہمشہ کے لئے امر ہوگئے۔

تاریخ اور نسلوں کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لئے ہمیں اپنا عملی کردار ادا کرنا چاہیئے۔
ماوزۓ تنگ کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی انقلابی لوگوں کی حمایت کرتا ہے، وہ انقلابی ہے اور جو کوئی بھی سامراجیت کا حامی ہے وہ انقلابی قوتوں کا دشمن ہے۔ جو کوئی بھی الفاظ کے ذریعے انقلابی لوگوں کا حمایت کرتا ہےلیکن اپنے عمل میں اس کے خلاف ہے وہ فقط زبانی طور پر انقلابی ہے لیکن جو کوئی عمل اور الفاظ دونوں کے ذریعے انقلاب پسندوں کا حامی ہے وہ صحیح معنوں میں انقلاب پسند ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔