حقیقی معیار – حکیم واڈیلہ

225

حقیقی معیار

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

 

مجھے اکثر یہ گمان تھا کہ ہم بیرون ممالک میں مقیم سیاسی کارکنان اور لیڈران تحریکی حوالے بہت ساری ذمہ داریاں سرانجام دےرہے ہیں یا پھر یوں کہیں کہ تحریک ہماری مرہون منت ہے اور ہمارے دم سے جاری و ساری ہے۔ بیرون ممالک میں ہماری موجودگی تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہے، وگرنہ تحریک تو کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔ اگر ہم بیرون ممالک میں احتجاج نہیں کرتے، سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کرتے، تو ہماری آواز شاید کوئی نہیں سن پاتا؟ اگر کبھی کسی غیر بلوچ سے ملاقات کرکے بلوچستان کے بابت اگر کچھ بتاتا، تو ایسا لگتا کہ بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے، چلو ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ یا اگر کبھی غلطی سے کسی ایسے شخص نے ٹویٹ کو ریٹویٹ کردیا یا پھر ریپلائی کردیتا، تو اس پورے ہفتے ایسا لگتا کہ میں ایک ایسا کردار ہوں جس کے بدولت بلوچ قومی تحریک کی بنیاد کھڑی ہے۔

جس طرح کے حالات و واقعات گذشتہ چند سالوں میں جان بوجھ کر پیدا کیئے گئے، ان حالات میں ایسا کیسے نہیں ہوتا کیونکہ جس طرح سے بلوچ قومی تحریک میں موجود چھوٹی موٹی بیماریوں کو کینسر جیسے موذی مرض کا نام دیکر علاج کے نام پر تحریک کو مزید بگاڑنے اور اس میں مزید بیماریاں پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی ۔ ایسے حالات میں اکثر لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ یہ تحریک میری ذاتی میراث ہے اور میرے بغیر تحریک کا چلنا یا پھر اس کی کامیابی ناممکن ہے۔ ایسے بہت سے واقعات ماضی قریب میں پیش آئے، جہاں افراد نے خود کو قومی تنظیموں سے، بنیادی بلوچ قومی سوال اور بلوچ قومی اتحاد سے بہتر اور بڑھکرسمجھنے کی ناکام کوشش کی، جس کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک میں مایوسی کی لہر دوڑنے لگی۔ لیکن بلوچ قومی تحریک سے جُڑے حقیقی ساتھیوں نے نہ صرف ان حالات کو بروقت سمجھا بلکہ ماضی کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے طریقے سے دوبارہ صف بندیاں شروع کردیں، جس کی مثال ماضی میں ملنا مشکل ہے۔ یہ صف بندیاں جہاں ظاہری دشمن کو کٹھک رہیں تھیں، تو وہیں دوست نما دشمن بھی بلوچ قومی ہم آہنگی اور یکجہتی کے سامنے رکاوٹ بن کر اسے نقصان دینا چاہتے تھے اور سوشل میڈیا کی حد تک انکے بقول وہ کامیاب بھی رہے۔ لیکن وہ کامیابیاں اور وہ سازشیں ۱۰ اگست کو ہی دم توڑچکیں تھیں کیونکہ اگلے روز بلوچ قومی تحریک میں ایک ایسی نئی تاریخ رقم کردی گئی کہ جسے اب شکست دینا یا متنازعہ بنانا انسانوں کے بس کی بات نہیں۔

۱۱ اگست ۲۰۱۸ کو بلوچ دھرتی ماں کے ایک نوجوان سپوت نے چائنا، پاکستان سمیت ان تمام دشمن قوتوں کو جو بلوچ قومی تحریک اور آزادی کی امید کو ختم کرنا چاہتے ہیں یا اس کے نام پر صرف کاروبار کرنا چاہتے ہیں، کو ایک واضح پیغام دیا کہ بلوچ سرزمین کے وارث، بلوچستان کے بہادر بیٹے آج بھی بلوچ سرزمین کی دفاع کی خاطر بلوچستان کے پہاڑوں میں موجود ہیں اور وہ چائنا سمیت کسی بھی بیرونی طاقت کو بلوچستان میں بلوچوں کی آزادی سے قبل کسی بھی طرح کا کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔ ۱۱ اگست کا دن ایک ایسا واقعہ ہوا، جس نے بلوچ سیاست میں انقلابی تبدیلی سمیت، پاکستانی ریاست اور چین کے دل و دماغ میں ایک ایسا خوف برپا کردیا ہے کہ اب چین کا پاکستان پر بھروسہ کرنا اگر ناممکن نہ ہو مگر بہت ہی مشکل ضرور ہوگا۔ شہید ریحان جان نے جس جوش و جذبے سے سرشار ہوکر یہ عمل سرانجام دیا، وہ پاکستان اور چین کےلیئے صرف ایک ابتدائی پیغام تھا کہ بلوچستان سے انخلاء میں ہی پاکستان اور چین کی بھلائی اور بہتری ہے۔

۱۱ اگست کا واقعہ جہاں دشمن کو بلوچ قومی طاقت کا احساس دلایا گیا، وہیں اس عظیم قربانی نے مجھ جیسے بے عمل اور سستی شہرت کے بھوکوں کو ایک ایسے امتحان میں ڈال دیا، جہاں کامیابی صرف ایک ہی طرح سے حاصل کی جاسکتی ہے کہ اپنے ذات کی نفی کرکے اجتماعی سوچ و فکر کو پروان چڑھانے کی خاطر جدوجہد کی جائے۔ شہید ریحان جان کی قربانی نے ایک بات واضح کردی کہ آج بھی بلوچ قومی سیاست اگر کسی وجہ سے دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں یا دنیا بلوچ قومی تحریک میں دلچسپی رکھتی ہے تو وہ ان لوگوں کی جدوجہد اور کاوشوں کا نتیجہ ہے جو اپنی زندگیاں قربان کرکے ہم سے صرف ہمارے وقت میں ایک چھوٹا سا حصہ مانگتے ہیں۔ اگر ہم ایمانداری سے قومی تحریک کو بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ بلوچ سرزمین کی دفاع اور آزادی کی خاطر جنگ کرنے والی مسلح تنظیمیں نہ صرف حق پر ہیں بلکہ وہ بلوچ قوم کی نمائندہ قوتیں بھی ہیں۔ تب جاکر ہم اپنے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرکے انکے مشن کو بڑھانے میں ادنیٰ سی ایماندارنہ کوشش کر سکیں گے۔