بلوچ قوم آزادی کی جنگ میں انشاء اللہ فتح یاب ہو گی :ڈاکٹر اللہ نذر

496

بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے بلوچ قوم کے نام اپنے ایک تازہ ویڈیو پیغام میں کہا کہ کچھ لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک کمزور ہو کر پسائی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ تاریخ میں یہ دو دہائی یعنی بیس سال پر مشتمل بلوچ آزادی کی تحریک آگے جارہی ہے۔ دن بہ دن بلوچ قوم اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ بلوچ قومی جد وجہد میں کمی نہیں آرہی ہے۔ بلوچ قوم میں جوش اور جذبہ ، بلوچ ماں اور بہنیں شہیدوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ انہیں فخریہ (ہلو ہالو) قبروں میں دفنا رہے ہیں۔ وہ اپنے سرمچاروں کیلئے نازینک گارہے ہیں۔ آدھی راتوں میں اپنے بھائیوں کیلئے کھانے اور پینے کا بند و بست کررہے ہیں۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ آج ریاست بلوچوں کی لاکھوں کی ملکیت لوٹ چکی ہے۔ بلوچ قوم کی معیشت تباہ کی گئی ہے۔ بلوچ قوم کی کھڑی فصلوں کو جلایا گیا ہے۔ بلوچ قوم پر بمباری کی گئی ہے۔ بلوچ نسل کشی ہو رہی ہے۔ لیکن بلوچ قوم پیچھے نہیں ہٹ رہی ہے، سوائے بلوچ سرداروں کے۔ وہ سودا بازی کیلئے کبھی آگے تو کبھی پیچھے مڑتے ہیں۔ لیکن عام بلوچ ابھی بھی قومی جدو جہد کیلئے کمر بستہ ہے اور بلوچ جہد کیلئے ایک انچ یا ایک قدم پیچھے نہیں ہٹا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر دوسروں کی بات کریں تو آج سرفراز جیسے بھکاری اور حاصل خان جیسے دلار بلوچ قوم کو یہی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بیرونی ممالک سپورٹ کر رہے ہیں۔ اگر بیرونی ممالک ہماری فنڈنگ کرتے، ہمیں ساز و سامان دیتے تو آج جنگ کی شکل یہ نہ ہوتی۔ نہ سرفراز کا وجود باقی رہتا اور نہ ہی حاصل خان۔ اور نہ دوسرے کاسہ لیس باقی رہتے۔ یہ بلوچستان کی indigenous جنگ ہے۔ بلوچ قوم کی home grown اپنی زمین سے پیدا ہونے والی جنگ ہے۔ بلوچ اپنی قومی شناخت، اپنے وسائل اور اپنی قومی محرومیوں کو دیکھ کر یہ جنگ شروع کر چکے ہیں۔ انشاء اللہ بلوچ قوم اس جنگ میں فتح یاب ہو گی۔
قوم پرست رہنما نے چین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں بلوچ قوم کی طرف سے چین اور حکومت چین سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ خود ایک انقلابی عہد سے گزرے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ اپنی چھیاسٹھ بلین ڈالر ( ان میں دو بلین ڈالر کم کر دی گئی ہے) میرے خیال میں یہ رشوت خور پاکستان کے ساتھ بلوچ سرزمین پر سرمایہ کاری نہ کرے۔ کیونکہ بلوچ ایک زندہ قوم ہے۔ بلوچ قوم کی اپنی زبان اور زاپنی زمین ہے۔ بلوچ کی شناخت ، زندمان اور زندگی گزاربے کا طریقہ ہے۔ بلوچ قوم کے قوانین اور روایات customs ہیں۔ بلوچ قوم میں قومی وجود کی تمام روایات اور قانون موجود ہیں۔ ایسی قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ لہٰذا آپ (چین) ایک غلط راستے کا انتخاب کر چکے ہیں۔ تمھارا سامنا آج ایک ایسے قوم سے ہے کہ نہ پرتگیز، نہ عرب، نہ منگول، نہ افغان اور نہ ہی کسی اور قوم نے اس قوم کو شکست دی ہے۔ بلکہ افغانستان جو ہمسایہ تھا، اُس نے آخر میں احمد شاہ ابدالی اور نصیر خان نوری کے درمیان معاہدہ کی شکل میں دوستی کیلئے ہاتھ بڑھایا۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے آنے والی انتخابت کے بارے میں کہا کہ آج پھر ووٹ اور الیکشن ہو رہے ہیں۔ ریاستی (پنجابیوں کے)دلال حاصل خان کہتا ہے کہ ’’مجھے اسمبلی میں بیٹھنے کو شرم آتی ہے‘‘۔ میرے خیال میں حاصل خان کو زندہ ہونے پر بھی شرم آنی چاہیے۔ کیونکہ وہ پارلیمنٹ میں جاکر بلوچ قوم کے خون کا سودا لگا چکا ہے۔ آج وہ دوبارہ کمر بستہ ہیں۔ جیسے کہ 2013 میں بلوچ نے ایک ریفرنڈم کیا اور ان کو نیست و نابود کیا کہ آج پانچ سو ووٹ لینے والا ، جو اصل میں پچیس ووٹ ہیں، باقی سب اپنے سے ٹھپہ لگائے گئے ہیں، اسے وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے۔ کل بھی اسی طرح کسی کو منتخب کیا جائے گا۔ بلوچ قوم سے میری اپیل ہے کہ وہ ان انتخابات کا حصہ نہ بنے۔ اس کو ٹرن آؤٹ کو کم کریں۔

انہوں نے بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ایک indigenous تحریک ہے۔ ہماری جد وجہد پوری بلوچ قوم کیلئے ہے۔ کوئی بلوچ کی مدد کرنا چاہتا ہے بلوچ ڈائسپورا جو باہر آباد ہے وہ اپنی تنخواہ سے وہاں کے ذمہ دار وں کے ذریعے بلوچ قوم کی مدد کریں۔ وہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کی مدد کریں۔ کوئی کسان ہے وہ ایک بوری گندم دے سکتا ہے۔ کوئی ایک (کپات) کھجور دے سکتا ہے۔ کوئی مالدار ایک بکری دے سکتا ہے۔ کوئی دکاندار ہے وہ ایک کلو چینی دے سکتا ہے۔ اپنی بساط کے مطابق اپنے قومی سرمچاروں کی مدد اور کمک کریں۔

قوم پرست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں امریکہ، اقوام متحدہ، اور دنیا کی تمام طاقتور قوتوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ بلوچستان ایک متنازعہconflict زون ہے۔ بلوچ قوم کی systematic genocide کی جارہی ہے۔ slowly genicide کررہے ہیں۔ ان کی خاموشی جرم میں شراکت کے برابرہے۔ وہ مانیں یا نہ مانیں وہ collaborator ہیں۔ اگر لیبیا میں چودہ افراد مرتے ہیں وہ کہتا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ وہاں conflict اور وار زون بنائے گئے۔ بلوچوں کی ہزاروں کی تعداد میں مر رہے ہیں لیکن یہاں وہ عمل دکھائی نہیں دیتا ۔ آج بلوچ نسل کشی ہورہی ہے۔ میں دنیا سے پھر بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ اس خطے ساؤتھ ایشا میں امن چاہتے ہیں،آج جیونی میں نیول بیس تعمیر کی جارہی ہے۔ یہ نیول بیس صرف بلوچ کیلئے خطرہ نہیں ہے، بلوچ قوم اپنی تحفظ جانتاہے۔ صدیوں سے ، یہ پانچ سو سالوں سے بلوچ قوم کی اسٹیٹ نیشن جو اٹھاریوں صدی میں تھا۔ میرا ماننا ہے کہ بلوچ پانچ سو سالوں سے اسٹیٹ نیشن کی حیثیت سے رہ رہا ہے۔ وہ اپنی زندگی گزارنے کا طریقہ جانتا ہے۔ لیکن یہ (نیول بیس )انڈیا کیلئے درد سر ہے، امریکہ کیلئے درد سر ہے۔ یہ دنیا کی دوسری طاقتوں کیلئے ایک درد سر ہے۔

ویڈیو پیغام میں آخر میں انہوں نے بلوچ قوم سے کہا کہ ان کاسہ لیسوں کو ووٹ نہ دیں اور ان سے دور رہیں اور اپنی قومی سرمچاروں کی مدد کریں ۔ کوئی پیسے دیکر مدد کرتا ہے کوئی ایک کپات کھجور دے کر مدد کرتا ہے کوئی اسے ایک بکری دیکر مدد کرتا ہے۔ کوئی چینی (راشن) دیکر مدد کرتا ہے۔وہ اپنی قومی سرمچاروں کی مدد کریں۔۔