افغان طالبان کا غیر ملکی فورسز کے خلاف نئے آپریشن ‘الخندق’ کا اعلان

462

کابل: افغانستان میں طالبان نے امریکا کی جانب سے نئی افغان پالیسی کے اعلان کے مقابلے میں غیر ملکی فورسز کے خلاف نئے آپریشن ‘الخندق’ کا عندیہ دے دیا۔

افغانستان کی سرکاری نیوز ایجنسی خاما پریس نے انکشاف کیا کہ طالبان، امریکا کو افغانستان سے بے دخل کرنے کے لیے ‘الخندق’ آپریشن کا آغاز کررہے ہیں جس میں حکومت، افغان فورسز اور غیر ملکیوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔

طالبان نے اپنے اعلامیے میں دعویٰ کیا کہ ملک کے بیشتر علاقے غیر ملکی افواج کے زیر اثر ہیں اور امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی سے واضح ہو گیا ہے کہ وہ مزید فورسز افغانستان کی سرزمین پر اتاریں گے۔

اس کے علاوہ طالبان نے دعویٰ کیا کہ غیر ملکی افواج نے طالبان کے علاوہ مقدس مقامات جیسا کہ مسجد کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

طالبان نے افغان حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے واشنگٹن سے دوطرفہ سیکیورٹی امور پر معاہدہ کرکے امریکی فوجیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کا موقع فراہم کیا۔

اس دوران طالبان قیادت نے اپنے جنگجوؤں کو ہدایت کی کہ وہ عام شخص کی طرح زندگی گزاریں تاکہ کوئی جانی یا مالی نقصان نہ ہو۔

دوسری جانب طالبان نے شہریوں کو ہدایت کی کہ وہ غیر ملکی اور افغان فورسز سے دور رہیں۔

واضح رہے کہ 28 فروری کو طالبان نے افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے امریکا کو ’اسلامی امارات‘ کے سیاسی دفتر میں براہِ راست مذاکرات کی پیش کش کی تھی۔

رواں سال کے آغاز میں طالبان کی جانب سے کابل حملوں کے بعد مذکورہ پیشکش کو طالبان پالیسی میں تبدیلی کے تناظر میں دکھا جارہا تھا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان نے بیان جاری میں کہا تھا کہ ’امریکی حکام سیاسی بحران میں ڈوبے افغانستان کے پرامن حل کے لیے اسلامی امارت کے سیاسی دفتر میں براہِ راست مذاکرات کریں‘۔

واضح رہے کہ افغانستان میں امریکا کی اتحادی نیٹو افواج کے گزشتہ 14 برس سے جاری مشن کو ختم کردیا گیا تھا، جس کا آغاز 11 ستمبر 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد طالبان کے خلاف جنگ سے ہوا تھا۔

یکم جنوری 2015 سے نیٹو کی انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو ٹریننگ اینڈ سپورٹ مشن سے تبدیل کردیا گیا، جس کے تحت تقریباً 13 ہزار نیٹو فوجی افغانستان میں قیام کریں گے، ان میں امریکی فوجی بھی شامل ہیں۔

بعد ازاں ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں امریکا کا صدارتی عہدہ سنبھالتے ہی افغانستان میں امریکی فوج میں دوبارہ اضافے کا اعلان کیا تھا۔

طالبان کے خلاف جنگ کے باعث پورے ملک میں تشدد کی فضا پروان چڑھ چکی ہے اور سال 2014 میں تقریباً 3,188 افغان شہری اس جنگ کی بھینٹ چڑھے، جو اقوام متحدہ کے مطابق سب سے بدترین سال رہا۔