© UNHCR

آج چار کان کنوں کی موت تب واقع ہوئی جب کوئٹہ کے قریب سنجدی کی کان میں زہریلی گیس بھر گئی۔

دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے کے مطابق جمعہ کے روزیہ حادثہ تب پیش آیا جب سنجدی کے کان میں زہریلی گیس بھر گئی اور چھ مزدور اندر پھنس گئے۔

ریسکیو آپریشن کے بعد سارے مزدوروں کو باہر نکال لیا گیا، جن میں سے چار دم توڑ چکے تھے، جبکہ دیگر دو کو بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال منتقل کردیا گیا۔

مزدوروں کے لئےبلوچستان کے کوئلے کے کان کام کے لئے سب سے خطرناک جگہوں میں سے ایک ہیں، جہاں بڑی تعداد میں اموات ہوئی ہیں۔ کوئلے کے کان جو کہ براہ راست اور بلاواسطہ حکومتی ادارے پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے ماتحت چلتے ہیں، وہاں صحت اور حفاظتی پالیسی نا ہونے کے برابر ہیں۔

بلوچستان میں زیرِ زمین کان کنی زیادہ تر ‘پلر اینڈ روم’ طریقے سے کی جاتی ہے، جو کہ کان کنی کا سب سے خطرناک طریقہ ہے اور دنیا بھر میں اس طریقے کا استعمال بند کردیا گیا ہے۔

بلوچستان میں پچھلے دس سالوں میں اب تک ڈیڈھ سو کے قریب گیس کے دھماکے ہوئے ہیں، جس میں سینکڑوں مزدوروں کی ہلاکت ہوئی ہے۔

ان تمام واقعات میں بدترین واقعہ سال 2011 میں مچھ کے علاقے میں پیش آیا، جہاں کان میں میتھین گیس بھرنے سے دھماکا ہوا تھا اور اس دھماکے کے نتیجے میں 52 مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ حالات تب بگڑ گئے تھے جب وہاں مزدوروں کو بچانے کے لئے مشینری ناپید تھی اور آس پاس کے لوگوں کو بیلچوں اور ہاتھوں کا استعمال کرکے زمین کھودنا پڑا تھا۔

انڈسٹری آل، جو کہ 150 ملکوں میں توانائی، پیداوار اور کان کنی کے شعبوں میں کام کررہے 40 ملین مزدورں کا بین الاقوامی نمائندہ تنظیم ہے، اس نے مئی میں بلوچستان میں ایسے ہی دو واقعات میں 7 مزدوروں کے جانبحق ہونے پر ایک سخت بیان جاری کیا تھا۔

انڈسٹری آل میں کان کنی کے ڈائریکٹر گلین موفین نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ، ” اس بات سے ہمیں انتہائی تکلیف ہوئی کہ پاکستان میں کان کنوں کو کام کے دوران جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ہم اس بات کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں کہ انتظامیہ کان کنی کے شعبے میں حفاظتی انتظامات میں لاپرواہی کرتے ہوئے کوئی کام نہیں کر رہا۔ ہم پاکستان کی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ صحت اورحفاظت کے حوالے سے فوراََ بین القوامی مزدوروں کے کنونشن 176 کو لاگو کرے۔ اور بین الاقوامی مزدور تنظیم کے صحت و حفاظت کے اصولوں کو زیرِ زمین کان کنی کے لیئے اپنائے”۔

بہرحال، بین القوامی تنظیموں کی مذمت کے باوجود مزدوروں کے کام کرنے کی حالت میں تبدیلی نہیں آئی۔ مزدوروں کے کمزور یونین کان کے مالکوں سے اپنے لئے بہتر کام کے حالات کا مطالبہ منوانے میں ہمیشہ ناکام رہے۔ بلکہ مزدور اتنے غریب ہیں کہ وہ کسی ہڑتال تک کا متحمل نہیں ہوسکتے۔ کان کنوں کو دن میں 10 سے 12 گھنٹے کام کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ اس تمام صورتِ حال نے مزدوروں کو جدید دور کا غلام بنا کر رکھ دیا ہے، جو کہ 12 گھنٹے کام کرنے کے باوجود  ایک قابلِ رحم زندگی گزارتے ہیں۔

زیادہ تر کان کن کانوں میں زہریلی گیس کی موجودگی کی وجہ سے تپِ دق کے مریض بن جاتے ہیں۔ جبکہ انکے علاج کا بھی کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ سے بات کرتے ہوئے ایک مزدور لیڈر نے کہا کہ،” وہ ہمیں بنیادی صحت کی اشیاء فراہم نہیں کرتے ہیں اور آپ دپِ دق کے علاج کی بات کرتے ہیں”۔

مزدورں کے لئے مہم چلانے والوں اور ریسرچرز نے اکثر اس بات پر زور دیا ہے کہ  کان کنی کے جدید طریقے لاگو کی جائیں اور کان کنوں کو ذاتی حفاظتی سامان بھی مہیا کی جائیں، جن میں سانس کے لئے ماسک، چشمے، آکسیجن سیلنڈر اور گیس کی مقدار کو بھانپنے والے آلات شامل ہیں۔