جی ٹوئنٹی اجلاس انتشار کا شکار، مشترکہ اعلامیے کے بغیر ختم

215

نئی دہلی میں جمعرات کو جی ٹوئنٹی وزرائے خارجہ کا اجلاس یوکرین جنگ کے معاملے پر امریکہ اور روس کی الزام تراشیوں کے سبب انتشار کا شکار ہو گیا۔ بھارت کی میزبانی میں منعقدہ اس اجلاس میں کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہو سکا۔

ایک ہفتے کے اندر یہ دوسرا موقع تھا جب جی ٹوئنٹی گروپ کے وزراء اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ اس سے قبل بنگلورو میں جی ٹوئنٹی وزرائے خزانہ کے اجلاس میں بھی کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہو سکا تھا۔ رواں برس جی ٹوئنٹی کے صدر کے طور پر بھارت نے صدارتی بیان جاری کیا۔

بھارت کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ “زیادہ تر ارکان نے یوکرین میں جنگ کی شدید مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ یہ جنگ بے پناہ انسانی مصائب کا سبب بن رہی ہے اور عالمی معیشت میں موجود کمزوریوں میں اضافہ کر رہی ہے۔”

اجلاس کے دوران یوکرین جنگ کے معاملے پر شدید اختلافات دیکھنے کو ملے۔ ایک طرف امریکہ کی قیادت میں مغرب نے اور دوسری طرف روس اور چین نے ایک دوسرے کے خلاف موقف اختیار کیے۔

گوکہ تمام ممالک اپنے اپنے سابقہ موقف پر قائم رہے لیکن اہم بات یہ رہی کہ امریکہ اور بھارت دونوں نے کہا کہ اجلاس کے دستاویز کی بھاری اکثریت نے تائید کی۔

اجلاس کے بعد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ اجلاس میں جن امور پر غور و خوض کیا گیا ان میں سے “95 فیصد پر” اتفاق رائے تھا۔ البتہ اعلامیے کے دو پیراگراف پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ “ہر کوئی دو پیراگراف پر متفق نہیں تھا۔”

جے شنکر نے کہا، “یوکرین تنازع پر اختلافات تھے جسے ہم دور نہیں کرسکے۔ ہم نے کوشش کی، لیکن ملکوں کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ تھا۔”

انہوں نے مزید کہا کہ بالی اعلامیے میں “ہم اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن بالی (جی ٹوئنٹی اجلاس) کے بعد کچھ واقعات ہوئے ہیں…ہم نے دوری کو پاٹنے کی کوشش کی۔”

یوکرین جنگ پر اختلافات برقرار

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اجلاس کے افتتاح کے موقع پر ایک ویڈیو پیغام میں تمام ممالک سے اختلافات کو ایک طرف رکھنے اور مشترکہ بنیادوں پر توجہ مرکوز کرنے کی درخواست کی تھی۔ تاہم اجلاس میں کشیدگی کی فضا برقرار رہی اور امریکہ اور روس نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے۔

نئی دہلی کی خواہش تھی کہ اس کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں غربت کے خاتمے اور ماحولیاتی مالیات جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے لیکن حسب توقع یوکرین پر روس کی فوجی کارروائی  پر بحث کا غلبہ رہا۔

اجلاس کے دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے درمیان مختصر ملاقات بھی رہی۔ گزشتہ جولائی کے بعد یہ دونوں کی پہلی براہ راست ملاقات تھی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار کے مطابق اس ملاقات میں بلنکن نے اس بات پر زور دیا کہ چاہے جتنا بھی وقت لگے واشنگٹن یوکرین کے دفاع میں اس کا ساتھ دیتا رہے گا۔

امریکہ بلیک میل کر رہا اور دھمکیاں دے رہا ہے، روس

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ مغربی وفود نے “جی ٹوئنٹی ایجنڈے کو تماشہ میں تبدیل کردیا، وہ معیشت میں اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری ماسکو پر ڈالنا چاہتے ہیں۔” انہوں نے مغرب کو یوکرین کو اناج کی برآمدات کی اجازت دینے کے معاہدے کو ناکام بنانے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

اجلاس کے دوران روسی وزیر خارجہ اور چینی وزیر خارجہ نے بھی باہمی ملاقات کی۔ جس کے بعد روسی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں دونوں ملکوں نے دوسرے ملکوں کو “بلیک میل کرنے اور دھمکیاں دینے” پر مغربی ملکوں کی تنقید کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے، “دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت، بلیک میلنگ، دھمکیوں کے ذریعے یکطرفہ سوچ مسلط کرنے اور بین الاقوامی تعلقات کو جمہوری بنانے کی مخالفت کرنے کی کوششوں کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا گیا۔”