اسلام آباد: بلوچ طلباء کا احتجاجی کیمپ اختتام پذیر

475

طالب علم حفیظ بلوچ کی باحفاظت بازیابی و بلوچ طلباء کو حراساں کرنے کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کا علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ چھبیس روز بعد اختتام پزیر، طلباء نے حفیظ بلوچ کی بازیابی تک احتجاجی سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے-

ہفتہ کے روز اسلام آباد پریس کلب کے سامنے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے طلباء کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی تعلیمی صورتحال کسی سے ڈکھی چھپی نہیں ہے بلوچ طلباء کو ہراساں کرنے اور بعدازاں جبری گمشدگی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے اور اب بلوچ طلباء بلوچستان سے باہر اسلام آباد اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بھی ہراسمنٹ اور جبری گمشدگی کا سامنا کررہے ہیں۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچ طلباء کا کہنا تھا کہ حفیظ بلوچ جو کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل کے طالب علم ہیں، انہیں 8 فروری 2022 کو خضدار کے ایک نجی اکیڈمی سے جبری گمشدہ کیا گیا جس کے بعد اسلام آباد و پنجاب سمیت ملک کے دوسرے حصوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اس کے ساتھ ساتھ بلوچ طلباء نے ہر قانونی دروازہ کھٹکھٹا کر مقتدر اعلیٰ کو اپنے مسائل سے آگاہ کرنے کی کوشش کی اور اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 1 مارچ 2022 کو پریس کلب اسلام آباد کے سامنے حفیظ بلوچ کی بحفاظت رہائی اور بلوچ طلباء کے ساتھ ہونیوالے ہراسمنٹ کو روکنے کیلئے ایک علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگائی گئی۔ ان سب کے باوجود ہمیں ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی انتظامیہ کا غیر سنجیدہ رویہ اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے بلوچ طلباء پہ وحشیانہ تشدد بغاوت کے پرچے سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے وقتًا فوقتاً پروفائلنگ دھمکیاں اور مختلف طریقوں سے ہراسانی بلوچ طلباء کو تشدد پہ اکسانے کیلئے ماحول مہیا کر رہے ہیں جو کہ انتہائی تشویشناک اور قابل مذمت ہے۔

صحافیوں سے گفتگو میں احتجاج پر بیٹھے طلباء کا کہنا تھا کہ آج اس احتجاجی کیمپ کا 26 واں دن ہے جو کہ شہر اقتدار کے بالکل بیچوں بیچ لگا ہوا ہے لیکن یہاں بھی ہمیں ناامیدی کے سوا کچھ نہیں مل رہا اس دوران ہمارے مسئلے کو سمجھنے کے بجائے مختلف لوگوں نے سول ڈریس میں آکر مختلف طریقوں سے ہمیں ہراساں کرنے کا سلسلہ مزید تیز کردیا ہے جس کے مثال حالیہ دنوں پیش آنے والے واقعات ہیں۔

طلباء کا کہنا تھا گذشتہ دنوں قائد اعظم یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹل نمبر 6 میں 3 افراد رات گئے بلوچ طلبہ کے کمروں میں بغیر اجازت گھستے ہیں مختلف سوالات پوچھتے ہیں اور دوسرے بلوچ طلباء کے بارے میں غیر قانونی و غیر آئینی طریقے سے معلومات اکٹھا کر کے طلباء کو ہراساں کرتے ہیں جبکہ کل ہمارے ایک اور بلوچ طالبعلم کو اسلام آباد پریس کلب کے باہر ایک سیاہ رنگ کی گاڑی میں سوار چند افراد نے پیچھا کرتے ہوئے روکا اور  مسلح تنظیموں کا تذکرہ کر کے ایسے سوالات پوچھے گئے جن سوالات کا ایک طالبعلم سے کوئی تعلق نہیں اور اس طالبعلم کو ڈرانے کی کوشش کی گئی اس سے ثابت ہو رہا کے ہراساں کرنے کا یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہے جس سے بلوچ طلباء مزید ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ انکی زندگی بھی خطرے میں ہے۔

انکا کہنا تھا کہ 8 فروری سے ہم پرامن احتجاجی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ حفیظ بلوچ کی باحفاظت رہائی اور بلوچ طلباء کی ہراسمنٹ کا خاتمہ ہو اس میں مزید تیزی آ رہی اور مقتدر اعلیٰ کی جانب سے اس مسئلے پر غیر سنجیدہ رویہ اپنا کر ہمارے مطالبات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اب جبکہ بلوچ طلباء تشویشناک حد تک عدم تحفظ کا شکار ہورہے ہیں تو ہم بحیثیت مظلوم طلباء یہ بات سب کی گوش گزار کرانا چاہتے ہیں کہ اس دوران بلوچ طلباء کے ساتھ پیش آنے والے کسی ناخوشگوار واقعے کے ذمہ دار اسلام آباد انتظامیہ اور سیکیورٹی اداروں سمیت پنجاب اور اسلام آباد کے یونیورسٹیاں ہوں گے جہاں بلوچ طلباء زیرتعلیم ہیں۔

طلباء کا کہنا تھا کہ ہمارے اب بھی وہی دو مطالبات ہیں کہ حفیظ بلوچ کو باحفاظت رہا کیا جاۓ اور اسلام آباد اور پنجاب میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کی پروفائلنگ انہیں دھمکیاں دینا اور مختلف طریقوں سے ہراساں کرکے عدم تحفظ کا شکار بنانا بند کیا جائے۔ ہمارا یہ احتجاجی سلسلہ ہمارے مطالبات پر عمل درآمد کروانے تک مختلف طریقے اپناتے ہوئے جاری رہے گی اور بہت جلد ساتھیوں کے مشورے سے آگے کا لائحہ عمل بتایا جائے گا۔

طلباء نے مزید کہا کہ ہم آج کے پریس کانفرنس کے توسط سے اپنے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں ہم تمام ایکٹیوسٹس اور صحافی حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آگے بھی اپنا فرض نبھاتے ہوئے بلوچ طلباء کے مطالبات منوانے تک ہمارا ساتھ دیں اور حوصلہ بنیں