بھاگ چند! ۔ تحریر: محمد خان داؤد

218

بھاگ چند!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اس کا نام بھاگ چند تھا جس کے معنی بنتے ہیں ”نصیبوں والاچاند!“
اس سے پہلے کہ وہ مٹھی کے آسماں پر طلوع ہوتا
وہ مٹھی کے ریت میں دفن ہونے جا رہا ہے
وہ مٹھی کی ریت میں دفن ہو جائے گا اور مٹھی کے آسماں پر آکاش کا چاند اداس اداس چمکتا رہے گا
اور مٹھی کے اداس چونرے میں ایک سندھی ماں دیوانی اپنے بھاگ چند کو یاد کرتی روتی رہے گی
پھر مٹھی سمیت پورا ریتیلا تھر اسے بھول جائے گا جب بھی شہروں سے بہت دور مٹھی کی بستی میں ایک ماں اسے یاد کرتی رہے گی
لوگ آئیں گے، جائیں گے، تعزیت کریں گے، میٹھا شربت اور گرم چائے پئیں گے، رسمی ہاتھ اُٹھائیں گے اور چلے جائیں گے جب بھی وہ ماں اپنے بھاگ چند کو روئے گی۔
یہ ضرورری نہیں کہ بس سندھ کے شہروں کی پولیس ظالم ہو دادا گیر ہو اور سندھ کے شہروں میں راؤ انوار اور عرفان بلوچ جیسے بدنام پولیس افسر ہوں یہ ضروری نہیں چھوٹے شہروں میں بھی بڑے ظالم دادا گیر اور غنڈے پولیس افسر اور سپاہی ہوتے ہیں جنہیں بھرتی بھی بھوتار کراتے ہیں اور وہ حکم بھی ان ہی بھوتاروں کا مانتے ہیں اور ماؤں کے دل نواز بیٹوں کو لاکپ میں قتل کر دیتے ہیں۔
وہ ان ماؤں کے جوان بیٹوں کو گھروں سے ان بھوتاروں کے احکاموں پر اُٹھا لے جاتے ہیں اور کچھ روز لاکپ میں رکھ کر قتل کر دیتے ہیں ایسا نہیں کہ بس پولیس والے ان بھوتاروں کے غلام ہیں پر ظلم تو یہ ہے کہ سندھ کے چھوٹے شہروں کے سرکاری اسپتالوں کے سرکاری ڈاکٹر بھی ان وڈیروں کے نوکر ہیں۔
پولیس والے بے تحاشہ تشدد کر کے ماؤں کے بیٹوں کو قتل کرتے ہیں۔اور سرکاری اسپتالوں کے سرکاری ڈاکٹر جھوٹے پوسٹ مارٹم میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں دل کا دورا پڑا ہے!
اور ایسے ظلم پر مائیں دل تھام کہ رہ جاتی ہیں ۔
ا ن ماؤں کے دلوں کی دنیا لُٹ جاتی ہے۔ وہ دہل جاتی ہیں ان کے دل درد سے بھر جاتے ہیں یہاں تک کہ ان کے دل کچھ لمحوں کے لیے رُک جاتے ہیں پھر بھی وہ مائی زندہ ہوتی ہیں۔
سندھ میں پولیس کے ہاتھوں ہاف فرائی فُل فرائی تو ایک اور روایت ہے۔
پر تھانوں اور لاکپ میں کسی قیدی کا مر جانا اور بات ہے۔
ہاف فرائی اور فُل فرائی تو اپنے جسموں پر بھونکتی گلیاں سہہ جا تے ہیں ۔
پر تھانوں می بند کیا سہتے ہیں؟
یہی سوال مٹھی کے بھاگ چند کی ماتم کرتی ماں کر رہی ہے
سندھ سے!
سندھ سرکار سے
اور پولیس کے اعلیٰ عملداروں سے!
جس کے معصوم سانولے چاند سے بیٹے کو پانچ روز پہلے مٹھی کی پولیس اپنے ساتھ لے گئی اور آج اس کی ننگی لاش واپس کی اس ماں کو جس ماں کو تو اردو تو کیا سندھی میں رونا بھی نہیں آتا وہ ماں آج سراپا احتجاج ہے اور وہ سارے درد چیخ وپکار اس بولی میں کر رہی ہے جس بولی میں وہ بھاگ چند کو کہتی تھی تو میرا چاند ہے! وہ چاند گھنایا گیا ہے! وہ چاند لاٹھیوں لوہے کے اوزاروں گرم سگریٹوں سے داغا گیا ہے!
وہ چاند جسے مٹھی کے آکاش پر چمکنا تھا وہ چاند ریزہ ریزہ ہوکر اس چونرے میں گرپڑا جس چونرے میں
ایک ماں ہے ایک محبوبہ ہے ایک بہن ہے ایک بابا ہے اور ایک معصوم بچی!
جو اپنے بابا کا سوکھا چہرہ اور بند آنکھیں دیکھ کر ماں سے سوال کر رہی ہے کہ
”اماں بابا نوں کی تھی گئیاں اے؟ “
”اماں بابا کو کیا ہو گیا ہے؟ “
اس سوال کا جواب تو مٹھی کا تھانیدار دے جو بھاگ چند کو اپنے ساتھ لے گیا تھا اور بھاگ چند اپنے پیروں سے چل کر چیختی پولیس موبائل میں جا بیٹھا تھا۔
شہروں کے طاقتور پولیس بدمعاش اور چھوٹے علاقوں کے تھانیدار کسی کو جواب دہ نہیں ہوتے
تو مٹھی کا تھانیدار کیوں کسی کو جواب دے کہ مٹھی کے بھاگ چند کو کیا ہوا جو وہ تھانے میں مارا گیا؟
بھاگ چند کی ماں کے پاس بس سوال ہیں اور ماتم! سو وہ کر رہی ہے
پر اسے جواب کون دے گا نہیں معلوم
معلوم نہیں ایسے کتنے بھاگ چند پولیس کی بدمعاشی کی بھینٹ چڑھ گئے اور کتنی مائیں ماتم کرتی رہ گئیں
ایسے ہی مٹھی کی ماں ماتم کرتی رہ جائیگی اور چونرے کے ساتھ بھاگ چند دفن بھی ہو جائے گا پھر اس سوال کا جواب نہیں ملے گا کہ بھاگ چند کیوں مارا گیا؟
وہ بھاگ چند جو مور جیسا تھا
جس کی ٹور مور جیسی تھی
وہ جو مٹھی کے آسماں کا نہیں صحیح پر مٹھی کی دھرتی کا چاند تھا
وہ جو ایاز کی شاعری یاد کرتا
جسے سُروں اور حسین صورتوں سے محبت تھی
وہ جس نے شعور آنے کے بعد بھی اپنا نام نہیں بدلا
پر اپنے نام کے مفہوم کے اور قریب ہوگیا
وہ جو بھاگ چند تھا
وہ جو پولیس گردی کا شکار ہوگیا
اب اس کے دفن ہونے کے بعد کیا ہوگا؟
وہی جرگہ
وہ راجونی فیصلہ
ایک غریب ماں کو کچھ لاکھوں کا دلاسہ دے کر پھر مٹھی شہر کا کاروبارِ زندگی یوں چل پڑے گا
پر کیا ایک تھری ماں کا بھاگ چند لوٹ آئے گا؟
کیا ایک ماں کو غم کچھ لاکھ کے دلاسے سے دور کیا جاسکتا ہے؟
ماں رات میں آکاش پر اداس چاند کو چمکتے دیکھ کر یہ ضرور سوچتی ہوگی کہ
”تمہا رے درد کے ماروں کی یہ دوا کیا ہے؟ “


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں