عورت اور مزاحمت – فیصل بلوچ

501

عورت اور مزاحمت

فیصل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک دوست سے بات کررہاتا تو وہ کہنے لگا کہ عورت پر ظلم تو صدیوں سے ہوتا آرہا ہے لیکن اس نے کبھی بھی ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کی کبھی مزاحمت نہیں کی، کافی لوگوں کے ذہن میں شاید یہ ہو تو میں نے سوچا کہ میں اپنا نظریہ بیان کروں۔

میرے نزدیک عورت نام ہی مزاحمت ہے۔ پھر آپ پوچھیں گے کہ کیوں آج تک مزاحمت کامیاب کیوں نہیں ہوا؟ وہ اس لیئے کہ مزاحمت کےلیے جو ہتھیار درکار ہیں وہ ابھی موجودہ تناظر میں عورت کے پاس نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر عورت کی آزادی کےلیے ضروری ہیکہ اس کے پاس ذاتی ملکیت ہو، کام کرنے کی خودمختاری ہو اور اس طرح کی کافی چیزیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک عورت جب نوکری کرتی ہے اور چند پیسے کمانے کی صلاحیت رکھتی ہے تو اس کی مزاحمت اور ایک ایسی عورت کی مزاحمت جو روز مرہ کی ضروریات کیلئے کسی مرد پر انحصار کرتی ہو دونوں میں کافی فرق ہوگا۔

اگر ہم آج کی بات کریں تو عورت ہمیں ہر (platform )پر آگے نظر آنے کو ملتی ہیں۔ وہ اس لیے کہ آج کی عورت مزاحمت کے ساتھ ساتھ ایک سوچ رکھتی ہے۔ جس طرح ابھی بھی ہمیں ایسے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ عورت تو انسانون میں شمار ہی نہیں ہوتے۔ جب چاہے استعمال کرلیا اور جب چاہے چھوڑ دیا۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ عورت ذات بےحس ہوتی ہیں۔ تو اس طرح کی چیزون سے مزاحمت جنم لیتی ہیں گو کہ وہ گھریلو ہوں یہ معاشرے میں کہیں اور۔

جس طرح ہمارے آباواجداد ایک میرومتبری کی ذہنیت کے حامل تھے۔ اسی طرح اگرچہ یہ(concept )شاید ختم ہو معاشرے میں لیکن پھر بھی یہی سوچ آج تک زندہ ہے، ہمارے گھروں میں۔ اسی طرح “فینن” اپنے ایک کتاب میں لکھتا ہیکہ اگر چہ ایک محکوم قوم پر ظلم ڈھاتے رہوگے تو وہ اپنے سے نچلے طبقے کے لوگون پر عاملیت والی ذہنیت اپناۓ گا۔

سماج میں عورت کا کیا کردار؟
سماج میں عورت صرف ضروریات تک محدود رکھی گئی ہے، ہمیشہ سماج نے عورت کے کردار کو نظرانداز کیا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کی بات کریں تو بالخصوص بلوچ گھرانے میں بیٹی کو بیٹے سے زیادہ پیار دیا جاتاہے۔ ہر خواہش پوری کی جاتی ہیں۔ مگر بات جب اپنی مرضی سے آگے پڑھنے اور زندگی گزارنے کی آتی ہے تو تہذیب یافتہ اور تعلیم یافتہ گھرانے بھی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتےہیں۔ یہیں سے ظلم اور حیوانیت کا آغاز ہوتا ہے اور ہم اس حقیقت سے آنکھ چرا کر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔

اسی طرح کتنی ہی لڑکیوں کو پرائمری یا مڈل کے بعد پڑھنے نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ اسکولوں میں اسپورٹس فیسٹیولز میں حصہ لینے بھی نہیں دیتے۔ اگر چہ وہ یہ کر بھی لیتی ہیں تو فوراً فتویٰ جاری کیئے جاتے ہیں۔ جس طرح چند روز قبل ایک بہت ہی دل خراش واقعہ دیکھنے کو ملا ۔کہ بلوچستان کی ایک ہونہار بیٹی کو بےدردی سے قتل کردیا گیا۔

شاہینہ شاہین کون تھی؟ وہ ایک سوشل ایکٹیوسٹ اور آرٹسٹ تھی۔ شاہینہ شاہین جو کہ پی ٹی وی پر مارننگ شو پروگرام کی میزبانی بھی کرتی تھی۔ اور ایک بلوچی میگزین “دزگہار” کی مدیر بھی تھی۔ وہ بلوچستان بلخصوص مکران میں لڑکیوں کی تعلیم اور حقوق کی علمبردار تھیں۔ خواتین کے حق و حقوق اور تعلیم پر کھل کے بات کرتی تھی۔ 2012 میں اسی سلسلے میں دزگہار چاگردی دیوان تنظیم کی پلیٹ فارم سے تعلیمی اور آرٹسٹ مقابلے کی تقاریب منعقد کی تھی۔ اور حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی سے فائن آرٹس میں ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کرچکی تھی۔ پھر اپنے علاقے تربت میں آکر آرٹس کی فروغ کیلئے مکران آرٹس اکیڈمی کھلوانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس نے معاشرے کو اپنے رنگین الفاظ سے آشنا کیا تھا۔ اسی طرح آج شاہینہ شاہین قتل نہیں ہوئی بلکہ ہمت اور آرٹس کی دنیا کو قتل کردیا گیا۔ آخر اتنی جدوجہد کے باوجود شاہینہ شاہین کو کیوں قتل کردیا گیا؟ کیا خون اتنا سستا ہوگیا ہے کہ کوئی جب چاہے کسی کو بھی قتل کردیتا ہے۔ آج کے بلوچ بہت غیرت غیرت کرتے ہیں لیکن اصل میں ان کی غیرت بے ضرور عورتوں پر ہی مبنی ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی لڑکی کچھ کرنا چاہتی ہو۔ مثال کے طور پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہو۔ تو ان کی غیرت جاگ جاتی ہے کیونکہ موجودہ تعلیم کی نظام کو دیکھ کر باہر جانا پڑھتا ہے تعلیم حاصل کرنے کیلئے۔ بس انہیں عورت کے روپ میں غلام چاہیے ہوتا ہے۔

اسی طرح شاہینہ شاہین جس طرح سے ایک معاشرے کے گندے نظریے کو ترک کرکے اپنی اور آئندہ آنے والی نسلوں کے خوابوں کو تعبیر دینے کیلئے جہد کررہی تھی۔ اسی طرح مہراب گچکی جیسے لوگ جو خود کو بہت غیرت مند سمجھتے ہیں۔ غیرت کے نام پر بے حس عورتوں پر زور ہوتے ہیں اور بےدردی سے قتل کردیتے ہیں۔ واہ رے بلوچ تیری تاریخ میں تو عورتوں کو اس طرح ذلیل کرکے تماشہ نہیں بنایا جاتا تھا۔ عورت کا ایک الگ ہی مقام ہوتا تھا۔ لیکن تیرے سپوتوں کی غیرت صرف عورت پر ہی مبنی ہوتی ہے۔

شاہینہ رنگوں کی دنیا کا منفرد حصہ تھی ۔ وہ دن اب دور نہیں جب ہر بلوچ عورت مزاحمت کی راہ اختیار کریگی۔ مہراب گچکی جیسے لوگوں کو مٹانے کیلئے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ معاشرے کی ترقی کی کنجی خواتین کو بااختیار بنانے سے وابستہ ہے۔عورتوں کو ان کے حقوق دینا ہماری ایمان اور آئین کا حصہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔