میری اداس مائیں! – محمد خان داؤد

210

میری اداس مائیں!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جب یورپین جوان لڑکیاں اوشو کے آشرم میں داخل ہوتیں، ان کے رس بھرے پستانوں سے مہا گرو یہ انداز کر لیتا کہ یہ مائیں ہیں، ان کے پیچھے ان کے گھروں میں ان کے دودھ پیاک بچے ان کے منتظر ہیں۔
وہ جوان لڑکیاں اوشو سے کہتی کہ وہ انہیں خوش رہنے کے گُر سکھائے
اوشو ان سے پہلا سوال ہی یہ کرتا کہ
،،کیا وہ شادی شدہ جیون گزار رہی ہیں؟،،
وہ ہاں میں جواب دیتیں
کیوںکہ ان کی شرٹس چلتے پھرتے میں دودھ سے گیلی ہوتی رہتیں
اوشو ان سے دوسرا سوال کرتا کہ
کیا وہ مائیں ہیں؟
اکثر ان میں سے حمل سے ہوتیں اور جو حمل سے نہیں ہوتی وہ خود ہی کہہ دیتیں کہ
،،وہ پیچھے اپنا بچہ چھوڑ آئی ہے!،،
تو اوشو اپنے مخصوص انداز میں ان سے مخاطب ہوتا اور کہتا
،،ماں ہونا ایک عظیم آرٹ ہے، اسے سیکھو!،،

اور وہ مائیں جو سندھ کے دور دراز گاؤں، گوٹھوں، قصبوں، گھروں سے چلی ہیں اور آج اس تپتے دن کی تیز دھوپ میں کراچی پریس کلب کے باہر اپنے پیا روں کا انتظار کرتے کرتے خود ہی ایک طویل انتظار ہوگئی ہیں اور وہ انتظاری کیفیت میں جی رہی ہیں۔ وہ مائیں ہیں، وہ چھوٹے بچوں کی مائیں نہیں ہیں۔ وہ ان بڑے بچوں کی مائیں ہیں جو بڑے بچے اب خود بابا بنے ہیں۔ وہ مائیں زندگی میں کسی اوشو کے پاس نہیں گئیں۔ اور نہ کسی اوشو جیسے عالم سے یہ سوال کیا کہ انہیں جیون گزارنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اور نہ ان کے دودھ سے بھرے پستانوں کو دیکھ کر اور نہ ان کے بڑے ہوئے پیٹ دیکھ کر کسی اوشو جیسے عالم نے یہ اندازہ لگایا ہوگا کہ وہ مائیں ہیں! اور نہ کسی اوشو جیسے عالم نے ان ماؤں کو یہ نصحیت کی ہوگی کہ
،،ماں ہونا ایک عظیم آرٹ ہے، اسے سیکھو!،،

وہ تو تب ہی مائیں ہوگئیں تھیں جب ان کے گھر میں کسی چھوٹے بچے کا جنم ہوا تھا اور وہ اسے سنبھال نہیں پارہی تھیں اور دوسرے گاؤں سے اس کی ماں نے آکر اس بچے کو سنبھالا تھا۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مائیں کئی بچے پیدا کر گئیں
جو مائیں زیادہ بچے جن کے اوشو کے آشرم میں داخل ہوا کرتی تھیں تو اوشو ایسی ماؤں کے لیے کہا کرتا تھا کہ
،،یہ مائیں فخر کے لائق ہیں!،،
ان معصوم ماؤں کو کبھی کسی نے نہیں کہا کہ تم بھی فخر کے لائق ہو!
وہ تو بس کٹتی فصلوں کی طرح ہر سال اپنی کھیتی سے بچے جنتی رہیں
لاعلمی میں، بے خبری میں!

وہ کچھ نہیں جانتی! وہ تو اتنے سال گزرنے کے بعد نانی، دادی بن جانے کے بعد بھی کچھ نہیں جانتی، انہیں کچھ خبر نہیں۔ وہ لاعلم ہیں۔ وہ تو بس اتنا جانتی ہیں کہ ان کے گھروں سے ان کے بچے ریاستی ادارے اُٹھالے گئے اور وہ انتظاری کیفیت بن کر آج وہاں بیٹھیں ہیں جہاں ان کا کبھی گزر بھی نہیں ہوا۔

عاقب کی ماں، کراچی پریس کلب کے در سے واقف نہ تھا پر آج وہ اس در پر دید لگائے بیٹھی ہے۔ اسے کیا معلوم کراچی کا پریس کلب کیا ہے؟ وہ کیا جانیں کہ اس کلب میں کیسے کیسے دبنگ صحافی بیٹھتے ہیں؟ وہ کیا جانے کہ یہاں،،میٹ دی پریس،،بھی ہوتا ہے۔
وہ کیا جانے کہ یہاں بھی سازشیں اور سیاست ہو تی ہے؟
وہ کیا جانے کہ بڑے صحافیوں کو ملنے والا پیکچ کیا ہوتا ہے؟
وہ کیا جانے کہ کون سا صحافی کس کے پے رول پہ ہوتا ہے؟
وہ کیا جانے کے نامور صحافی کیسے کیسے اور کتنے میں بک جاتے ہیں؟
وہ کیا جانے کے سچ بھی جوتوں کی طرح بکتا ہے؟
وہ کیا جانے کے مشہور صحافی سیکھنے والی لڑکیوں کا ریپ کرتے ہیں اور بدلے میں ایک اسٹو ری، کالم یا فیچر لکھ کر ان کے نام سے ملک کے مشہور اخبار میں چھاپ دیتے ہیں؟

وہ کیا جانے کے بڑے صحافی رات کے آخری پہروں میں ان سیکھنے والیوں کے ساتھ پائے جاتے ہیں، جن کے سروں پر سچ، حق اناالحق کا بھوت سوار ہوتا ہے اور وہ مشہور صحافی انہیں چلتی پھرتی مائیں بناکر انہیں چھوڑ جاتے ہیں، آدھے جلے سگریٹ کی طرح۔
وہ مائیں کیا جانے کہ صحافت میں بھی رنگ رلیاں ہوتی ہیں
وہ مائیں کیا جانے کہ ان پریس کلبوں میں بیٹھے صحافی انہیں حقیر جانتے ہیں
وہ ان ماؤں کو کیا پر اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی حقیر جانتے ہیں، جو نام ور نہیں جو بھاری بھا ری پیکچ نہیں لیتے جو کسی کے پیرول پہ نہیں ہوتے۔
وہ مائیں کچھ نہیں جانتی
وہ مائیں لاعلم ہیں
وہ مائیں بے خبر ہیں
وہ مائیں موم بتی مافیا اور سوشل میڈیائی مافیا سے لاعلم ہیں۔
وہ مائیں ان وباؤں سے بھی لاعلم ہیں جو وبائیں ان کے اداس کیمپوں میں آ بیٹھتی ہیں اور ان دکھی ماؤں کے سامنے اپنے جدید موبائل فونوں سے تصاویر بناتی رہتی ہیں اور وہاں سے چلی جاتی ہیں۔
وہ مائیں ہیں!
درد کی ماری
روتے نینوں والی
دھڑکتے دل والی
تھوڑی سی آواز پر گھبرا کر اُٹھ بیٹھ جانے والی اور سب سے پوچھنے والی کی
،،کیا وہ لوٹ آیا؟!!،،
لاعلم
بے خبر
معصوم
اکیلی
اداس!

وہ اس شوشے کو کبھی نہیں جان پائیں گی، جس شوشے میں بہت سے لوگ عید کے دن کراچی اور حیدرآباد سے چلتے ہیں ہنستے ہیں، مسکراتے ہیں، مستیاں کرتے ہیں، اپنے گھروں سے شاندار ناشتہ کر کے شہر کے داخلی راستوں پہ پر تکلف ظہرانہ کرتے ہیں، گرم چائے اور ٹھنڈی کافی پیتے ہیں، شام کو اس اداس کیمپ میں بیٹھ جاتے ہیں، جب ڈھلتے آسماں پہ جاتے سورج کی ایسی حالت ہوتی ہے جس کے لیے جون ایلیا نے کہا تھا کہ
،،میرے شہر کے خوش باش لوگ
شام کو چلے آتے ہیں یہ دیکھنے کہ
میں کیسے بُجھ رہا ہوں!!!،،
اور پھر کچھ دیر بیٹھ جانے کے بعد وہ اس شہر میں ان دوستوں کے گھر جا کہ ٹہرتے ہیں جو دوست انہیں بس پورن فلموں سے ہی خوش نہیں کرتے پر ایک کال پہ اسے بُلاتے ہیں جو انہیں خوش کرتی ہے اور رات کے آخری پہروں تک مہ چلتی رہتی ہے۔
اور جاتی رات میں نکلتے دن کو وہ مائیں اس اداس کیمپ میں دیکھتی رہتی ہیں کہ
کیسے رات ڈھلی اور اب کیسے دن چڑھ رہا ہے!
کہنے کو سندھ کی دانش اس کیمپ میں آئی تھی جو کیمپ اسیران حال کا تھا
پر انہوں نے ان ماؤں کے دلوں پہ دستک ہی نہ دی
جو مائیں کچھ نہیں جانتی
جو مائیں لاعلم ہیں.
جو مائیں بے خبر ہیں
جو مائیں کسی سے ماں بننے کا آرٹ نہیں سیکھیں
وہ بس مائیں ہیں
ان کی شادیاں ہوئیں
انہوں نے بچے جنیں
ان کی ماؤں نے ان کی پہلے اور دسرے بچے کی پالنا میں مدد کی
اور وہ مائیں بن گئیں
میری اکیلی مائیں
میری اداس مائیں
میری منتظر مائیں!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔